تحریر : میر افسر امان کچھ دن پہلے کراچی میں مقامی ہوٹل میں جماعت اسلامی کی کرپشن کے خلاف جاری مہم کے سلسلے میں سیمینار احتمام کیا گیا۔ اس میں امیر جماعت اسلامی اورسینیٹر سراج الحق، حافظ نعیم الرحٰمان امیر جماعت اسلامی کراچی کے علاوہ کراچی کی سول سوسائٹی کے نمائندے، کالم نگار، صنعت کار،اخبارات کے ایڈیٹرز، الیکٹرونک میڈیا،معاشی تجزیہ کار،اینکر پرسنز بیرونی نمائندوں نے بھی شرکت کی۔اس میں خصوصی طور سابق سفارت کار اور موجودہ سیاسی تجزیہ کار آغا ہلالی اورمعاشی تجزیہ کار اور چیئرمین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس کراچی، ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی خصوصی طور پر شریک ہوئے۔مقررین نے اپنے اپنے طور پر پاکستان میں جاری کرپشن کے ناسور پر پر روشنی ڈالی۔
پاکستان کے معروف اورمشہور معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر شاہد حسن نے اپنے خطاب میں اعداد شمار کی روشنی میں کرپشن کو ثابت کرتے ہوئے کہا کہ کرپشن کا ناسور پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ معاشرے کی چادر کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن کی مختلف جہتیں ہیں۔ ان میں مالی، ذہنی( انٹلیکچول)، معاشی، اخلاقی،اور نظریاتی کرپشن شامل ہیں۔ انہوں نے کہ آج میںمالی وس ذہنی کرپشن کے کچھ پہلوں پر حاضرین کے سامنے گفتگو کروں گا۔
پاکستان میںکرپشن پر قابوں پانے کے دعوے تو تواتر سے کیے جا رہے ہیں اور ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی ٢٠١٥ء کی رپورٹ سے غیر حقیقت پسندانہ نتائج اخز کیے جا رہے ہیں۔حکمران ٹرانسپیسرنسی انٹر نیشنل کی رپورٹ کے حوالے سے اس کو اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیںاور عوام کو کہہ رہے ہیں کہ ٢٠١٥ء میں کرپشن کم ہوئی ہے۔ ٹرانسپیسرنسی انٹر نیشنل کاقاعدہ یہ ہے کہ جتنے نمبر زیادہ ہوں گے اتنی کرپشن کم تصور کی جائے گی۔اس رپورٹ میں پاکستان کو ١٠٠ میں سے ٣٠ نمبر دیے گئے ہیں۔جبکہ ٢٠١٤ء میں ٢٩ نمبر تھے۔
Pakistan
٢٠١٥ء میںپاکستان کے ٣٠ کے اسکور کے مقابلے میں بھوٹان کا٦٥،بھارت کا ٣٨ اورسری لنکا کا ٣٧اسکور رہا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان تین ملکوں میں کرپشن پاکستان سے کم ہے۔ انہوں نے مذید کہا کہ حکمران کی طرف سے ١٤ برس سے نیپ کی جانب سے لوٹی ہوئی دولت کی وصولی کے غلط دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے تجزیے میں کہا کہ کرپشن ، بدانتظامی،ناہلی اورشاہانہ اخراجات کی وجہ سے قومی خزانے کو ٣٠٠٠ روپے سالانی نقصان ہوتا ہے۔ٹیکسوں کی استعداد سے کم وصولی سے موجودہ سال میں قومی خزانے کو ٥٠٠٠ ارب روپے کا نقصان ہوا۔دونوں کوملا کر اگر دیکھا جائے تو٢٢ ارب روپے روزانہ کا تخمینہ بنتا ہے۔وفاقی،صوبائی اسمبلیوں میں کرپٹ ممبران کے اختیارات کے ناجائز استعمال کی وجہ سے بھی بھاری کرپشن ہوتی ہے۔نیپ کہتی ہے کہ اس نے پندرہ سال میں لوٹی ہوئی ٢٦٦ ارب وصول کیے ہیں جبکہ یہ غلط اعداد شمار ہیں۔
نیپ کی طرف سے قومی خزانے میں جمع کرائی رقم ٧ارب روپے سے بھی کم ہے۔اس دوران نیپ کے سات چیئرمین تعینات ہوئے جس میں حاضر سروس اور ریٹائیرڈلیفٹنٹ جنرل اور سپریم کورٹ کے سابق جج شامل تھے۔ ڈاکٹر شاہد حسن کے مطابق سب نے جھوٹ بولا ہے۔ملکی قرضوں کا حجم ٢٠٠٨ء میں ٦٦٩١ ارب روپے تھا جو بڑھ ک٢٠١٥ء میں ٢١٠٤٤ ارب روپے ہو گیا ہے۔امریکی ایجنڈے کے تحت دہشت گردی کی جنگ لڑنے سے ٢٠٠٢ء سے اب تک ١١٢ ارب ڈالر کا نقصان ہو ا ہے۔ ڈاکٹر شاہد حسن نے کہا کہ یہ سب نقصان مالی اور ذہنی( انٹلیکچوئل)کرپشن کی وجہ سے ہوا۔پاکستان سے لوٹ کر بیرونی دنیا منتقل کی ہوئی کرپشن کی رقوم کو واپس لانے کے دعوے گذشہ ٢٠ برس سے کیے جا رہے ہیں لیکن آج تک کچھ بھی واپس نہیں ہوا۔
انہوں اپنی تقریر کے آخر میں کہا کرپشن پر قابو پانے کے لیے آئین کی٦٢ اور ٦٣ شق پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ حکومتی شعبوں میں اصلاحات کی جائیں۔ٹیکسوں کی وصولی کے ہدف کو بڑھایا جائے۔سی پیک میں پاکستان خود سرمایا لگائے تاکہ پاکستان کی ترقی کا خواب پورا ہو سکے۔ہمارا ملک قدرتی معدنیات سے مالا مال ہے اس سے حکمرانوں کوفاہدہ اُٹھانا چاہیے۔نیپ کوآزادانہ کام کرنیس دیا جائے تاکہ کرپشن کا پیسہ واپس پاکستان کے خزانے میں جمع کرایا جا سکے۔ اگر خرابیوں کو دور نہ کیا گیا تو معیشت خراب سے خراب تر ہوتی جائے گی اور ہمارے جوہری پروگرام کو بھی خطرات ہوں گے۔
Siraj ul Haq
آخر میں سراج الحق کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ کرپشن کے خلاف ملک میں ایک ذبردست تحریک ہی اس ناسور سے عوام کو بچایا جا سکتا ہے جو آپ کی جماعت ہی کر سکتی ہے۔سراج الحق نے اپنے صدارتی خطاب میں حکمرانوں سے کہا کہ کرپشن کا ہمالیہ نظر نہیں آتا۔ نیپ ناکام ہو گیا ہے۔ نظریاتی کرپشن سے ملک دو لخت ہو گیا۔ ملک میں کسی بھی کرپٹ حکمران کی گنجائش نہیں۔ ٦٠ کروڑ روپے وزیر اعظم کے بیرونی دوروں کی نظرہو گئے۔ملک میں معاشی، سیاسی، انتخابی اور اخلاقی کرپشن کا ناسور قومی سلامتی کے لیے خطرناک شکل اختیار کرگیا ہے۔کرپشن کے خلاف بنائے گئے اداروں نے بھی ہمیشہ ان کو چھتری فراہم کی ہے۔کالے دھن کو سفید کرنے کا کام بھی سرکاری سرپرستی میں ہوتا ہے۔یہ ایک اخلاقی اور قومی ذمہ داری ہے کہ جماعت اسلامی کی طرف سے جاری کرپشن فری پاکستان کی تحریک میں نیک نام اور باضمیر شخصیات اور جماعتیں بھی شامل ہو جائیں۔
ہم یہ قومی تحریک اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک پاک سرزمین کرپشن اور اس کے پروردہ عوام کا خون چوسنے والوں سے پاک نہیں ہو جاتی۔اربوں روپے خرچ کر کے ایوانوں میں پہنچنے والے پھرکھربوں کی کرپشن کرتے ہیں۔حکمران حج، زکوٰة وعشر فنڈ سے اربوں روپے خررد برد کرتے ہیں۔ قومی وسائل کی کرپشن کو قانونی طور پر دہشت گردی اور غداری قرار دیا جائے اور ہم اعلان کرتے ہیں کہ ایوب خان سے نواز شریف تک اقتدار میں آنے والے سب کا احتساب ہو گا اور سرعام ہو گا۔قومی دولت کا لوٹا ہوا بڑا حصہ سوئٹزر لینڈ،برطانیہ اور امریکہ میں موجود ہے۔ اس لوٹی ہوئی ہی دولت کو لانے کے لیے جماعت اسلامی ممتاز اور باکردار لوگوں پر مشتمل قومی جرگہ بنائے گی جو بیرونی ممالک میں پوشیدہ لوٹی دولت کا پتہ لگائے گا اور اس کی واپسی کے لیے کوشش کرے گا۔قوم کو تحریک پاکستان کی طرح کرپشن کے خلاف تحریک شروع کرنی ہو گی تاکہ کرپشن کے ناسور کو ختم کیا جائے۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان کی ہدایت پر پورے پاکستان میں کرپشن فری پاکستان مہم کا آغاز ہو چکا ہے شہروں شہر اور گائو ںگائو ں میں اجتماعات، جلوس، سیمینار، ریلیاں اور اجتماعات منعقد کیے جا رہے ہیں۔ کراچی میں ١٠ اپریل کرپشن فری پاکستان مارچ کا اعلان کر دیا گیا ہے۔امیر جماعت اسلامی پاکستان نے حکمرانوں اور عوام سے اپیل کی ہے کہ ہمیں سچے دل سے اپنی سابقہ کوتاہیوں کی اللہ سے معافی مانگنی چاہیے۔ اور اجتماعی معاملات باضمیر لوگوں کے سپرد کرنا چاہیے تا کہ ملک سے کرپشن کا مکمل خاتمہ ہو سکے۔