کرپشن کا زہر

Corruption

Corruption

تحریر: پروفیسر مظہر
کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن ہماری سیاست کے سینے میں تو صرف دِل ہی نہیں غیرت، حمیت، انا اور خودداری نامی بھی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ کرپشن کے ناسور کا موادِبَد قوم کی نَس نَس میںسما چکا ہے جس کی بنا پر شگفتِ بہار کی اُمید دَم توڑتی دکھائی دیتی ہے۔ قحط الرجال کایہ عالم کہ قطار اندر قطار جہلاء کے جلوس اور چند ”گِنے چُنے” عقیل وفہیم رب ِ علیم و خبیر کی و دیعت کردہ دانش کوب روئے کارلانے کی بجائے تضحیک کے ڈر سے خاموش۔ ہم حالتِ جنگ میں، لیکن وقت کے فرعون اپنی ذات کے گنبد میں گُم۔ پورا ملک دہشت گردوں کے نشانے پر لیکن سینٹ کی ”کھلی منڈی” میں”گھوڑوں”کی خرید و فروخت جاری۔اسی خرید و فروخت سے پریشان ہو کر حکومت نے آئین میں 22 ویں ترمیم کاڈول ڈالا لیکن پیپلزپارٹی اور جے یو آئی نے صاف انکار کر دیا۔

حکومت کے اتحادی مولانافضل الرحمٰن کی رال ایک آدھاضافی سینیٹرکے حصول پرٹپک رہی ہے اورآصف زرداری صاحب ایک بارپھر اپناچیئرمین سینٹ بنوانے کی تگ ودَومیں دَردَر کے بھکاری بنے نظرآتے ہیں ۔کپتان صاحب سے لاکھ اختلاف کے باوجود ہمیںیہ کہنے میںکوئی عار نہیںکہ وہ کرپشن کے عفریت کے سامنے سینہ تانے کھڑے ہیں۔اِس سارے منظرنامے میںقصور کس کاہے ؟۔کیاسیاستدانوں کا ؟۔ہرگزنہیں ، قصورتوہمارا اپناہے کہ ہم اپنی تقدیرہمیشہ انہی ہاتھوںمیں سونپتے ہیں جوہم سے زیادہ کرپٹ ہوں۔ جب یہ ہمارے ہی ہاتھوں کے تراشیدہ بُت ہیںتو سوال یہ ہے کہ اگریہ ”گھوڑے”ہیں توپھر ہم کیاہیں؟۔ آقاۖ کافرمان ہے ”اللہ جب کسی قوم کوسزا دیناچاہتاہے تواُس پرظالم وجابر حکمران مسلط کردیتاہے ”۔جب ہم من حیث القوم ہی کرپٹ ہیںتو پھرہمارے ساتھ یہی ہوناتھا جو ہو رہا ہے۔

Corruption

Corruption

سچ تویہی ہے کہ ہم تووہ سدھائے ہوئے بندرہیں جو اپنے مفادات کی خاطرہر صاحبِ مکر وریا کی ڈگڈگی پر ناچتے رہتے ہیںلیکن پھربھی ہاتھ کچھ نہیںآتا سوائے رسوائیوںکے ۔رب ِ لَم یَزل نے توہمیں دنیاجہاں کی نعمتوںسے مالامال کیا۔سونا اُگلتی زمینیں، آسمان سے باتیںکرتی پہاڑوںکی چوٹیاں ،جنت نظیروادیاں ،لہلہاتے کھیت اورزمین کے اندر تہ در تہ سونے ،تانبے ،لوہے ،کوئلے ،جپسم ،کرومائیٹ ،سنگِ مَرمَر ،تیل اورگیس کے لامحدود ذخائر لیکن لاریب ہم اِن سے مستفیدنہیں ہوسکتے ۔وجہ یقیناََیہ ہے کہ ہم نے رَبّ کے نام پرزمین کایہ ٹکڑاحاصل کیا۔قائدِاعظم نے فرمایا کہ ہمیںزمین کاایک ایساٹکڑا چاہیے جسے ہم اسلام کی تجربہ گاہ کے طورپر استعمال کرسکیں ۔زمین کاوہ ٹکڑا توہمیں مل گیالیکن ”اسلام کی تجربہ گاہ ”کہاںہے ؟۔ہم نے وطنِ عزیز کانام تو اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھ دیا لیکن یہ اسلامی ہے نہ جمہوری ۔اسلام کے نام ہی سے ہمیں چِڑ ہے اور جمہوریت زورآور کے گھرکی لونڈی اور دَر کی باندی ۔ہم نے اپنی زندگیوںسے ”رَبّ ” کو نکال کررسوائیوں کوگلے لگا لیا ۔حفیظ جالندھری نے کہا تھاتحریر: پروفیسر مظہر

منظور، منظور اے اہلِ دنیا
اللہ میرا ، باقی تمہارا

لیکن ہم نے اللہ کوچھوڑ کرباقی سب کواپنا خُدا مان لیاجس کانتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔حکمت کی کتاب کہتی ہے ”اے نبیۖ ! اِن سے پوچھو کہ ایک تووہ ہے جو دَردَر کابھکاری ہے اورایک وہ جوصرف ایک دَرپہ جھکاہے ۔بتاؤ اِن دونوںمیں سے بہترکون ہے؟”۔لیکن ہم ایسے نافرمان کہ ایک دَرچھوڑ کر دَردَر کے بھکاری بَن گئے۔اللہ کی نعمتیںٹھکرانے والوںکا یہی حشرہوتا ہے ۔قومِ بنی اسرائیل بھی رَبّ کی محبوب قوم ہواکرتی تھی اُس پرمَن وسلویٰ اتاراگیا ،بادلوںکی چھت تیارکی گئی ،فرعون کواُس کی سپہ سمیت دریائے نیل میںغرق کیاگیا ،لیکن وہ ایسی باغی ،بَدبخت اور احسان نا سپاس قوم کہ مَن وسلویٰ کی جگہ ساگ پات کا مطالبہ کردیا ۔ساگ پات کا مطالبہ پوراکرنے کے لیے اللہ نے اُن کے لیے شہرمسخر کیااور شہرکے مرکزی دروازے سے داخل ہوتے وقت مخصوص الفاظ کی ادائیگی کاحکم دیا لیکن بنی اسرائیل نے اُن الفاظ کوالٹ کردیا اورتب اُنہیں ہمیشہ کے لیے بھٹکنے کوچھوڑ دیاگیا ۔قُرآنِ مجیدمیں بنی اسرائیل کاقصہ پڑھتے وقت رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن ہم نے یہ کبھی نہیںسوچا کہ ربّ ِ لَم یزل سے بغاوت کے معاملے میںہم بھی بنی اسرائیل سے کم نہیں ۔ہمارے بھی پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیاپر بَرملا احکاماتِ ربانی کامذاق اُڑایا جاتا ہے۔

ہمارے علماء بھی حبِ جاہ کے اسیرہیں ۔ہمارے مدبربھی اپناسارا تدبر اِس امرپر صرف کردیتے ہیںکہ فی زمانہ دینِ مبیں قابلِ عمل نہیں ۔اُنہوںنے ”لبرل اسلام”کی ایسی اصطلاح گھڑی ہے کہ جس کی آڑ میںوہ دینِ مبیںکا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں ۔ایساکرتے ہوئے وہ یکسربھول جاتے ہیں کہ میرے آقاۖنے یہ گارنٹی دی تھی کہ اگر قُرآن وسنت کومضبوطی سے تھامے رکھوگے توقیامت تک گمراہ نہیںہوگے لیکن ہم تووہ گارنٹی بھی بھول چکے ۔اب یہی دیکھ لیجئے کہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجودہم عالمی دہشت گرد امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبورہیں ۔اگرکوئی غیرت کی بات کرے تو ہمارے سیکولر بزرجمہر ”غیرت بریگیڈ” کا نام دے کر اُس کامذاق اُڑاتے ہیں۔یہ ربّ ِ کردگار سے کھلی بغاوت کا شاخسانہ ہی توہے کہ سب کچھ ہونے کے باوجودہمارے پاس کچھ بھی نہیں ۔چنیوٹ کے علاقے رجوعہ میںکھربوں ڈالرکا لوہا ،سونا اورتانبا ملا جس کی مالیت کاتخمینہ 2500 ارب ڈالرلگایا جارہا ہے ۔تھرمیں دنیاکا چوتھابڑا کوئلے کا175 بلین ٹن کاذخیرہ جوسعودی عرب اورایران کے تیل کے مجموعی ذخائرکے برابر ہے۔

جس کی مالیت 25 کھرب ڈالراور جہاںسے 200 سال تک مسلسل ایک لاکھ میگاواٹ سالانہ بجلی پیداکی جاسکتی ہے ۔چاغی کے علاقے ریکوڈک میںمعدنی ذخائر 6 ارب ٹن ، جن سے 22 ملین پاؤنڈ تانبا اور 13 ملین اونس سوناحاصل ہوسکتا ہے لیکن کینیڈاکمپنی بیرک گولڈنے یہ مقداراِس سے کئی گنا زیادہ بتائی ہے کیونکہ چاغی میں300 کلومیٹر کے وسیع علاقے میںایسے ذخائرکی نشاندہی کی گئی ہے ۔بلوچستان میںگوادرایک ایسی پورٹ ہے جوچین ،روس ،مشرقِ وسطیٰ اوریورپ کی باہمی تجارت میںآسانیاں پیداکر دے گی ۔گوادرپورٹ پاکستان کونہ صرف مضبوط بلکہ خطے کی سیاست میںانتہائی اہمیت کاحامل ملک بھی بناسکتی ہے ۔عالمی اندازے تویہی ہیںکہ اگرہم اِن قدرتی خزانوںسے استفادہ کرنے کے قابل ہوجائیں توپاکستان دنیا کادسواں امیرترین ملک بن سکتاہے لیکن ہم تو کشکولِ گدائی تھامے دَردَر کے بھکاری ہیںاوربھکاری ہی رہیںگے کیونکہ اِن سارے خزانوںکا مالک تو اللہ ہے۔ یہ خزانے ہماری پہنچ سے اُس وقت تک دورہی رہیںگے جب تک ہم اپنے اقوال ،افعال اوراعمال سے یہ ثابت نہیںکرتے کہ ہم صرف اسی کے بندے ہیں جس کے یہ خزانے۔

Professor Mazhar

Professor Mazhar

تحریر: پروفیسر مظہر