کراچی (جیوڈیسک) خیبر پختونخوا حکومت نے ٹریفک کے نظام کو بہتر اور کارآمد بنانے کے عرض سے جون دو ہزار پندرہ کو صوبائی دارالحکومت پشاور میں ٹریفک وارڈن اسکواڈ متعارف کرایا جس کا کام تقریباً پچاسی لاکھ آبادی کے شہر پشاور میں موجود اندازاً سات لاکھ گاڑیوں کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے علاوہ شہریوں کو ٹریفک قوانین سے آگاہ بھی کرنا ہے۔
جرمن نشریاتی ادارے ’ڈوئچے ویلے ‘‘ کے مطابق ٹریفک وارڈنز نے نو ماہ کے مختصر سے عرصے میں جہاں شہر میں گاڑیوں کی آمدورفت کے نظام کو کافی حد تک بہتر بنایا وہیں اس اسکواڈ کو عوام کی طرف سے بھی کافی تعاون ملا جس کی وجہ اس ٹیم کی قابلیت اور مناسب رویہ بتایا جاتا ہے۔
شہر کی سڑکوں پر پیشہ وارانہ مثالیں قائم کرتے ہوئے انہوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران سمیت متعد دوسری اہم شخصیات کو بھی نہ بخشا اور غلطی کرنے پر ان کی گاڑیوں کے چالان بھی کیے ۔ اس ا سکواڈ نے جہاں عام شہریوں کے علاوہ سات ہزار بااثرشخصیات کا چالان کیا ہے وہیں ٹریفک وارڈن کی ذیلی شاخ، رپیڈ رسپانس اسکواڈ کے انچارج اسسٹنٹ سب انسپکٹر رشید خان نے تین ہزار سے زائد وی آئی پیز کو ڈرائیونگ کے دوران غلطی کرنے پر جرمانہ بھی عائد کیا ۔
رشید خان کو اپنی بہتر کارکردگی کی بنا پر اعلیٰ افسران کی جانب سے نقد انعامات کے ساتھ ساتھ اسناد سے بھی نوازا گیا ہے۔ ٹریفک اسکواڈ کے ایک آفیسرآصف رضا کے بقول رشید خان نے ہمیشہ اپنے فرائض کو ترجیح دی ہے۔ انہوں نے کبھی بھی عام شہری اور کسی اعلیٰ عہدے دار میں فرق نہیں کیا۔
رشید کے لئے سب برابر ہیں، غلطی کرنے پر آپ کو جرمانہ ادا کرنا ہی ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ آئی جی پولیس خیبر پختونخوا ناصرخان دورانی نے رشید خان کو باقی اہلکاروں کے لئے رول ماڈل قرار دیا ہے۔
اے ایس آئی رشید کی یہ خواہش ہے کہ خیبرپختوانخوا کی ٹریفک پولیس کے ساتھ ساتھ تمام دوسرے اداروں سے بدعنوانی اور رشوت خوری کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے۔ اس مہم کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے وہ کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رشید خان اور ان کی ٹیم نے گزشتہ ماہ جنوری میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کی کثیر تعداد کو جرمانہ کیا جس سے قومی خزانے میں دو کروڑ نو لاکھ جمع ہوئے۔
رشید خان کہتے ہیں کہ انہوں نے ممبران قومی اسمبلی، سنیٹرز، ممبران صوبائی اسمبلی، سابقہ صوبائی وزراء، سیکریٹریز، ڈاکٹرز، پروفیسرز، وکلاء، ریٹائرڈ ججز اور دیگر اعلیٰ حکام کی طرف سے قوانین کو پامال کرنے پر چالان کیا ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں، ’’چالان کرتے وقت اکثر اوقات رشوت میں بڑی رقوم کا لالچ دے دیا جاتا ہے یا پھر بااثر لوگوں کی جانب سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے لیکن میں نے اپنے فرائض ہمیشہ خوش اسلوبی، خندہ پیشانی اور خوش اخلاقی سے سرانجام دئیے ہیں۔‘‘
رشید خان سارے واقعات خفیہ کیمرے میں ریکارڈ بھی کرتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اس کوسوشل میڈیا پر اپ لوڈ بھی کرتے ہیں۔ اس بارے میں پشاور ٹریفک پولیس کے سینئر سپریڈنٹ صادق بلوچ کہتے ہیں کہ رشید کو پن یا عینک کیمرے کی اجازت اس لئے دی گئی ہے تاکہ بنائی گئی ویڈیوز سے عام شہریوں کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ پولیس اہلکاروں کے ساتھ تعاون کے علاوہ قوانین کا احترام کریں۔
شہری بھی ٹریفک اسکواڈ بالخصوص رشید خان کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کر تے ہیں۔ پشاور کے رہائشی فضل اکبر کے بقول، ’’ یہ لوگ بلا امتیاز غلطی کرنے پر تمام لوگوں کا چالان کرتے ہیں، انہوں نے کبھی بھی رشوت کا مطالبہ نہیں کیا، یہ لوگ انتہائی نرم اور خوش اخلاقی سے بات کرتے ہیں، جوکہ ٹریفک پولیس میں ایک مثبت تبدیلی ہے۔‘‘
رشید خان کے مطابق، ڈرائیونگ کے دوران چھوٹی سی غلطی بھی بعض اوقات بڑے حادثے کا باعث بن سکتی ہے لہٰذا احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ ’’چھوٹے بڑے جرمانے کی وجہ سے یہ لوگ آئندہ محتاط رہتے ہیں اور ڈرائیونگ کے دوران ان غلطیوں کو نہیں دوہراتے۔‘‘
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں ایس ایس پی ٹریفک صادق بلوچ نے خود وارڈنز کو چیک کرنے کے لئے سادہ کپڑوں میں ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کی تھی، جس پراسکواڈ کے ایک اہلکار نے ان کا چالان کیا ٹریفک وارڈن کی فرض شناسی اور خوش اخلاقی کے بناء پر ایس ایس پی نے انہیں شاباشی اور دو ہزار روپے بطور انعام بھی دیئے۔