تحریر : عرفان خان نیازی مشہور مقولہ ہے کہ (Justice Delayed is Justice Denied)نیب کا ادارا س لئے خصوصی طور پر بنا یا گیا تھا تاکہ ملزمان جلد ازجلد کیفر کردار تک پہنچیں اور محتسب اعلیٰ کو براہ راست اپیلیں بھی اسی لیے کہ حقداران کی حق رسی جلد ازجلد ممکن ہوسکے ۔مگر نیب میں مقدمات کئی سال سے زیر التوا ہیں اس طرح دیر سے فیصلہ ہو نا حق داران کا اصل حق مارنے کے مترادف ہے بڑے بڑے مگر مچھوں پر نیب ہاتھ بھی نہیں ڈالتی اور حکمران ان کے لواحقین یا ان کے لے پالک نا جائز کاروبار کرنے والے موثرسفارشیں ہوجانے کی وجہ سے ویسے ہی دندناتے پھرتے رہتے ہیں ۔کبھی کبھار کوئی بڑی مچھلی پھنس بھی جائے تو پھر پلی بار گین فارمولہ پر فوراً عمل در آمد کیا جاتا ہے یعنی کھربوں کے فراڈی سے دو چار کھرب لیکر اس کی واضح رہائی بھی ایسی کہ مقدمہ سمجھ لیں یہیں ختم ہو گیاکالا دھن والوں کی تو چاندی ہوگئی ہے اربوں کے فراڈ کرو دسواں حصہ دے کر چھوٹ جائو ۔اب قوانین تبدیل کردیے گئے ہیں مگر بیورو کریسی کے راج میں ایسے قوانین بھی اپنی حیثیت برقرار نہ رکھ سکیں گے پھر وہی چھوٹ چھاٹ شروع ہو جائے گی۔
ہاں اگر پانامہ لیکس ،بہاماس لیکس زرداری والی وکی لیکس اس کے سوئس اکائونٹس سرے محل لندنی اور دبئی فلیٹس محلات کا حساب لے لیا ہو تا تو شکنجے کی سختی کی وجہ سے نئے ملزمان جنم نہ لیتے۔مگر یہاں تو بڑوں کی رہائی اور غریبوں کی شامت آئی ہے انوکھی مثال آج کے دور میں موجود ہے ۔پلی بارگین کا فراڈ منظر عام پر آتے ہی زبان زد عوام ہو چکا ہر طرف سے اس لین دین پر تبرے بھیجے جارہے ہیں یہ دیگر بیورو کریٹوں ،روپے پیسے کے فراڈی دہشت گردوں کے لیے آسان و اعلیٰ سبق ہے کہ جتنا بھی مال حرام جمع کرلو پکڑے بھی گئے تو صرف چار یا پانچ فیصد دے کر تمام الزامات سے بری ہوا جاسکتا ہے۔
نہ مخصوص “پولیس تفتیش” بھگتنی ہوگی نہ چھترول نہ منجی لگانا نہ رت جگے برداشت کرنا پڑیں گے۔ کوئی بال بیکا نہ کرسکے گا ملازمت چلی جائے گی تو کیا ہوا۔جتنے کمالیے ہیں اتنے تواگر عمر نوح سے بھی زیادہ عمرمل جاتی تو پانچ ہزار سالوں تک ملازمت کرتے رہنے پر بھی نہیں کما سکتے تھے۔ خود وزیر اعلیٰ پنجاب نے ایسے پلی بارگین کو فراڈ کہا ہے مگر چھوٹ جانے کا یہی ” احسن طریقہ “ہے۔
Nawaz Sharif
عوام بالخصوص ایسا مطالبہ کرسکتی ہے کہ جناب وزیر اعظم اور ان کے شہزاد گان اور ان کے وکی لیکس والے معاملات بھی نیب دیکھ کر انھیں بھی پلی بارگین کرکے ان کی جان چھوڑدیں تاکہ یہ قضیہ بھی مستقل طور پر حل ہو جائے۔ہر طاقتور و مقتدر شخصیت پر تو نیب کے بھی ہاتھ ڈالتے ہوئے بھی ٹانگیں کا نپتی ہیں کہ انھی کے بنائے گئے ڈیپارٹمنٹ میں مزید ملازمت کر نی ہوتی ہے اور کون اپنے بال بچوں کو بھوکا مارنا چاہے گا ؟ اس لیے مقتدر طاقتور افراد پر ہاتھ ڈالا ہی نہیں جا سکتا جیسا کہ زرداری کے سرے محل ،سوئس اکائونٹس دبئی محلات اور شریفوں کے وکی لیکس و لندنی فلیٹوں کے معاملات پر ثابت ہو چکا ہے سابق وزرائے اعظم گیلانی و راجہ رینٹل اب تک دندناتے پھرتے ہیں۔
غریب اگر بکری چور بھی ہوتا تو آج تک سالوں سے جیلوں میں گل سڑ رہا ہوتا۔ضمانت تو کیونکر ہوتی مقدمہ تک نہ چلایا جاتا ْ۔ کرپٹ عناصر ملک کو لوٹ کھسوٹ کے ذریعے کنگلا کر ڈالیں گے اور “ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں” اربوں کھربوں کے فراڈ کرنے والوں کو کلین چٹ دے ڈالنا اچنبھا والی بات ہے ایسے ملزما ن کا کٹہرے میں لایا جانا ناگزیر ہے۔ عدالت عظمیٰ کو چاہیے کہ پلی بارگین کے اس کھلے ظالمانہ فراڈ پر سوموٹو نوٹس لے اور غبن کرنے والے فراڈیوں رشوت خوروں سے مکمل مال بر آمد کروائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پا نی ہوسکے۔
آئندہ یہ عمل مکمل طور پر ختم ہوجائے کہ اب تک ملک کو کرپٹ طاقتور حکمرانوں نے بہت لوٹ لیا ہے نہ عوام میں برداشت کی سکت باقی ہے نہ ہی ملک کا خزانہ اس کا مزید متحمل ہو سکتا ہے۔صد افسوس کہ کرپشن کا قفس ثابت ہونے والا کوئی ادراہ موجود ہی نہیں ہے جس سے بدعنوانی کرنے والوں کو شے ملتی ہے کہ ان کے اثاثہ جات پر کوئی بھی ہاتھ نہیں ڈال سکتا اور ڈال بھی لے گا تو مک مُکا کی آپشن موجود ہے اس پلی بارگین کی بجائے قانونی سزا کو ضم کرنا ہوگا۔