تحریر : منظور احمد فریدی اللہ کی لا محدود حمدو ثناء اور ذات حبیب کبریا پر کروڑوں بار درود وسلام کا نذرانہ پیش کرنے کے بعد راقم کو اپنے چند قارئین کی طرف سے یہ اصرار اس حد تک بڑھا کہ آج اپنے شعبہ پر گستاخیاں کے عنوان کے تحت اپنی ہی برادری پر قلم اٹھایا ہے قارئین کے پیغامات میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ صحافی بھی اسی معاشرہ کا حصہ ہیں اور کرپشن بھی کرتے ہیں ،دوسری رائے یہ ہے کہ میں بیوروکریسی سے وزیر اعظم تک کی کرپشن تک تو چیختا ہوں اپنے شعبہ پہ چپ ہوں تو اسی تناظر میں اپنی کم علمی اور عقل و شعور کے مطابق جو آج تک اس شعبہ سے حاصل ہوا تجربہ و علم پیش قارئین ہے سب سے پہلے اپنے اکابرین اہل فن اور اہل قلم حضرات جو میرا میرے ملک کا قوم کا اثاثہ ہیں انکی خدمت میں میرا دست بستہ سلام پہنچے انہیں درویش صفت انسانوں کی بدولت آج تک اس شعبہ کی جو عزت و مقام بچتا چلا آرہا ہے اور انشا اللہ تاقیامت قائم بھی رہیگا کیونکہ کائنات کی فطرت میں تبدیلی لکھی ہوئی ہے سدا ایک موسم اس کا مقدر نہیں بہ ہر حال میں آغاز اپنے سفر سے کرونگا میرا شعبہ معاشرہ کا وہ آئینہ ہے جس نے معاشرہ کو اسکے چہرے پر لگنے والا ہر داغ دکھانا ہوتا ہے ایک پٹواری سے وزیر اعظم تک میڈیا جو امیج عوام میں پیش کرتا ہے اسکا اپنا ایک اثر ہوتا ہے۔
مگر صحافی طبقہ بھی اسی معاشرہ کی مخلوق ہوتے ہیں انکی ضروریات زندگی بھی عام لوگوں کی طرح زندگی کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں جنہیں پورا کرنے کے لیے اپنے ساتھ وابستہ افراد کو ایک معقول اعزازیہ دیتے ہیں مگر یہ بات اب پرانی ہوگئی اب ادارے اپنے نمائندگان سے بزنس کے نام پر بھاری رقوم مانگتے ہیں جسے پورا کرنے کے لیے ہمارے کچھ بھائی اپنے قلم کی حرمت کا سودا کر لیتے ہیں اسکے لیے انہیں اپنے قلم کے علاوہ برادری کی عزت وقار اور بڑوں کی محنت کچھ بھی یاد نہیں رہتا جس دور میں راقم نے اپنے الفاظ اخبار کے صفحہ پر منتقل کرنے شروع کیے ہم اپنے علاقہ میں گنتی کے تین یا چار افراد تھے اور الحمد للہ اپنا اپنا کاروبار تھا بس ایک شوق ایک جذبہ تھا جس نے ہمیں صحافی بنا دیا ہم اپنے کاروبار سے وقت نکال کر اپنے علاقہ کے مسائل پر گفتگو کرتے پھر انکے حل کے لیے متعلقہ ارباب سے رجوع کرتے اور قارئین یہ پڑھ کر حیران ہونگے کہ ہمیں اپنے مسائل کو اخبارات پر شائع کروانے کی نوبت بہت کم آئی ایک رعب تھا ایک دبدبہ تھا۔
اس شعبہ کا کہ لوگوں کے دلوں میں خود بخود عزت پیدا ہوجاتی تھی علاقہ کی انتظامیہ اخبار میں خبر چھپنے سے پہلے کام کردیا کرتے تھے میرے متعلقہ تھانہ کے ایک ایس ایچ او جو شرابی تھا اور کرپشن کا بھی بادشاہ تھا ایک بار چیلنج کیا کہ جو کرنا ہے کرو پھر اللہ نے اسے ذلیل کیا اور ہمیں وہ عزت دی اسکے بعد کسی کو یہ جرات ہی نہ ہوئی نیت میں اخلاص ہو اور کام جائز ہو آپ اللہ کی رضا کے لیے مظلوم کے ساتھ ہوں تو اللہ اپنی شان وقدرت کے مطابق آپکے ساتھ ہوتا ہے پھر کیا ہوا میں چند ذاتی وجوہات کی بناء پر اخبار سے دور ہو گیا مشرف صاحب کی حکومت میں عوام کو دو تحفے ملے جن کا خمیازہ شائد آنیوالی کتنی نسلیں بھگتیں گی ایک تو موبائل فون اور دوسرا میڈیا کی آزادی کے نام پر اسلام دشمن طاقتوں کی خوشنودی کے لیے پرائیویٹ چینلز موبائل فون کے مضمرات سے ہر ذی شعور آگاہ ہے اور میڈیا کی آزادی کی قیمت صرف اہل قلم ادا کررہے ہیں اور کب تک کرینگے یہ اللہ کو معلوم ایک تو بیرونی طاقتوں نے بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کا تشخص خراب کرنے کے لیے ان چینلز کو لانچ کروایا جس میں سری لنکن ٹیم پر حملہ اور دیگر کئی۔
islam
ایسے مواقع قارئین جانتے ہیں جن سے اسلام اور مسلمان کا جو امیج ان چینلز نے پیش کیا وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں دوسرا نقصان ہمیں یعنی اہل قلم کو ہوا اس کا بھی ازالہ ابھی تک تو نظر نہیں آرہا میں اس بھگڈر کے عرصہ میں اخبار سے دور تھا اور میرے علاقہ میں صحافیوں کا ایک خود رو گروہ پیدا ہوچکا تھا اور ایک پریس کلب بھی بن چکا تھا ایک ایم این اے اپنی شہرت کے لیے اسکا افتتاح بھی فرما چکے تھے مگر اخبار سے دوری کی وجہ سے میں ان حالات سے بے خبر ضرور تھا مگر اخبار پڑھنے کی لچ سے تائب نہ تھا میں نے یہ کوئی خبر نہ پڑھی تھی بلکہ یہ واقعہ کچھ اسطرح پیش آیا کہ میرے جاننے والے ایک سید زادہ میرے پاس تشریف لائے اور میری خدمات اپنے پریس کلب کے لیے طلب کیں احترام سادات ہماری گھٹی میں شامل ہے انکار کا سوال ہی نہ تھا میں نے حامی بھر لی اور انکے حکم پر وقت کے ایک معروف اخبار سے نمائندگی طلب کی تو انچارج نمائندگان نے مجھ سے ایک بھاری رقم بزنس کی مد میں طلب کی خیر بعد از تعارف یہ معاملہ رعائتی نرخوں پر طے پاگیا مگر مجھے صحافت کی عزت ختم ہونے کا معاملہ سمجھ میں آگیا جناب مشرف صاحب کی دی ہوئی میڈیا کی آزادی نے ہر پیسہ رکھنے والے بندہ کو اس صنعت میں انویسٹر بنا دیا ایک بہت بڑا کاروبار بن گیا یہ شعبہ اب اداروں نے نمائندوں کے ذریعے مال کمانا شروع کیا ہوا تھا خواہ وہ کوئی بھی ذرائع استعمال کریں۔
قبلہ شاہ صاحب نے مجھے پاپتن پریس کلب میں جاکر ایک دھڑا کے الیکشن میں انکا ساتھ دینے کا حکم دیا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ پریس کلب جسے میرے رفیق اور سئینیر صحافی سید مختار بخاری مرحوم اور ہمارے ساتھ( چند نام اور جو شائد آج مجھ سے صحافی کو صحافیوں میں شامل بھی نہ سمجھتے ہوں )کی جگہ کوئی سو سوا سو کے قریب صحافی موجود تھے اور کوئی بہت بڑے اخبار کا نمائندہ تھا تو کوئی ٹی وی چینل کا خیر ہینڈ شو کے ذریعے انتخاب ہوا اور ہمارے پینل نے اپنی حکومت کا اعلان کردیا جسکی اگلی تقریب حلف برداری میں ایک نو آموز ایم پی اے ڈی سی او ڈی پی او نے باقاعدہ حاضری دی اور ایک پر تعیش دعوت کھانے کے بعد ہم نے حلف اٹھا لیے میں اتحاد کی برکت کا بھی قائل ہوں پریس کلب کی طاقت کا بھی تماشہ دیکھ رہا ہوں اور جمہوری ملک میں الیکشن کو جمہوریت کا حسن بھی تسلیم کرتا ہوں مگر ہوا یہ کہ ہار جانے والے پینل نے ہمیں تسلیم کرنے کے بجائے اپنی انا کا مسئلہ سمجھا اور ہر نتھو خیرے کو پریس کارڈ جاری کرکے ہمارے برابر گنتی کرنے کی کوشش میں مصروف ہوگئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے مقابلے میں چھ سات پینل لے آئے جس میں ہر پینل کا الگ صدر اور باقی عہدیدار بھی الگ الگ میں نے اپنے دوست شاہ صاحب کی منت سماجت کرکے خود اور انکو اپنے دیہات تک محدود کرلیا اور سات صدرو والے پریس کلب سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔
یہاں ہم نے اپنے پینل کو بغیر عہدوں کے لالچ کے مضبوط کیا آٹھ دس میڈیا لسٹ اخبارات میں ہماری خبریں باقاعدگی سے چلنے لگیں تو ہم نے جس بھی کرپٹ افسر کو چھیڑ ا اس نے ہمارے پریس کلب کے عہدیداروں سے سفارش کروائی ڈی سی او آفس ڈی پی او آفس ایکسائز تعلیم صحت حتیٰ کہ جس محکمہ کی بھی کرپشن کو بے نقاب کیا اسکے پیچھے شہر کے سات صدور نے ہمیں لازمی اپنی رشتہ داری بتائی لیکن ہم نے اپنے منشور کے برعکس کوئی کام کیا نہ ہی کسی سفارش نے ہمارے ضمیر کو قائل کیا ظالم کو بخش دینا بھی ظلم میں حصہ داری کے مترادف ہے بیوروکریسی نے ہمارے ان سات صدروں میں سے باری باری اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا جب کسی نے ذرا آنکھ کھولی تو دوسرا اسکی جگہ لینے کو بے تاب تھا اسی طرح ہمیں پینڈو دیہاتی پاگل اور جنونی کہہ کر پریس کلب سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی مگر اندر سے انتظامیہ کو بھی علم ہے کہ جب شہر کا صحافی جو نیا نیا اس میدان میں آیا ہو وہ کرپشن پکڑیگا تو ایک لفافہ سے معاملہ دب جائیگا اور جب یہی کرپشن دیہات کا پرانا صحافی پکڑ لے گا تو وہ آن ائیر بھی ہو جائیگی اور اگر اسے چھیڑا تو وہ لفافہ کے بجائے گریبان پکڑلیگا کیونکہ شہر اور دیہات کی تہذیب میں ابھی وہی فرق ہے جو خشک دودھ پینے والے بچے اور ماں کا دودھ پینے والے بچے میں ہوتا ہے اور اس سارے قصہ میں اگر اب تک بھی قارئین نہ سمجھ پائیں کہ کرپشن کے فروغ میں میڈیا کا کتنا کردار ہے تو فی امان اللہ والسلام۔