پاکستان میں بد عنوانی کی تاریخ نئی نہیں ہے قیام پاکستان سے پہلے دوسری جنگ عظیم کے بعد اس کاآغاز ہوا اور ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے آج ملک وقوم کی شریانوں میں سرایت کر گئی ہے ،درحقیقت ملک میں بد عنوانی کی ابتدا ستر کی دہائی سے ہوئی، اس دہائی میں کئی وزراء پر بدعنوانی کے الزامات عائد ہوئے ،کئی بااثر سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ انتظامیہ اور عدلیہ کے ذمہ داروں کے نام بھی بد عنوانیوں میں ملوث پائے گئے لیکن ان کے خلاف عوام میں کوئی خاص رد عمل نظر نہیں آیا جس کی دو بڑی وجوہات تھیں، نمبر ایک۔ تعلیم کا فقدان اور نمبر دو۔ جمہوریت، عوام کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ ہونے کے سبب ان معاملات کو سمجھ نہیں پاتی محض سنی سنائی باتوں پر یقین کر لیا جاتااور روٹی کپڑا مکان کا انتظار رہتا کہ جمہوریت ہمیں یہ تینوں چیزیں مہیا کرے گی، جمہوریت نہ تب تھی نہ اب ہے اسی جمہوریت کا اصل نام بد عنوانی ہے جسے ستر کی دہائی میں کوئی سمجھ نہ سکا اور آج سب جانتے ہیں کہ جمہوریت اور بد عنوانی دو نہیں ایک ہی نام ہے۔
بدعنوانی جس کو عرف عام میں کرپشن کہا جاتا ہے ایک ایسا لاعلاج مرض ہے جس نے ملک و قوم کو چھلنی کر دیا ہے لیکن ملک کا ہر چھوٹا بڑا ادارہ ،ہر خاص و عام اس لا علاج مرض سے فیض یاب ہو رہا ہے،برا ہو انسانی خواہشات کا کہ پوری ہونے کا نام نہیں لیتیں اور مجبوراً پیٹ کا ایندھن بھرنے کیلئے اس موذی مرض کا سہارا لینا پڑرہا ہے،جیسے کہ عرض کیا ہے یہ مرض کوئی نیا نہیں مگر آج اس نے جو کراہیت آمیز شکل اختیار کر لی ہے اس کی وجہ سے پوری انسانیت کراہ رہی ہے ،اور اس سے چھٹکارہ پانے کی کوئی راہ دکھائی نہیں دے رہی ،اس کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ پورے معاشرے کو یرغمال بنا رکھا ہے ،اور کوئی اس کے جال سے باہر نہیں نکل سکتا۔
تیس پینتیس سال قبل عوام کو جو سہولتیں حاصل تھیں وہ آج انہیں میسر نہیں اس دوران کئی حکومتیں آئیں اور گئیں جو بھی آیا جمہوریت کے نام پر نئی بدعنوانیوں کا پہاڑ ساتھ لایا ،جمہوریت کے نام پر بد امنی اور بے اطمینانی پھیلائی ،اقتصادی اور معاشی حالت کو مزید بگاڑا ،تعلیم ، صحت، روزگار ،انسانی حقوق بالخصوص خواتین اور اطفال کے ساتھ بے رحمانہ سلوک ہوئے ،قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ان کے اہلکاروں نے غریب عوام کی دمڑی وچمڑی تک اتار لی ،رشوت کے بغیر اس ملک میں پتہ نہیں ہلتا ،پورے ملک میں کوئی ایسا شعبہ یا ادارہ نہیں جہاں ایک چپڑاسی سے ایم ڈی یا سی ای تک رشوت جیسا حرام نہ کھاتا ہو اور کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں۔ نجی سطح پر بد عنوانی ہوتی ہے تو سرکاری سطح کی حالت اس سے بھی بد تر ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ بد عنوانی کے جتنے واقعات سرکاری اداروں میں پائے جاتے ہیں ان کا شمار بھی مشکل ہے اور یہ ہی وہ محب وطن ہیں جو ملک کو پستی میں دھکیل رہے ہیں انہیں صرف مال وزر سے عشق ومحبت ہے بنگلوں گاڑیوں کے پجاری ہیں ان کی بلا سے ملک وقوم تباہ ہوں، غرق ہوں یا صفحہء ہستی سے مٹ جائیں۔
ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ بدعنوانی کے بارے میں جانتے ہوئے بیانات تو دئے جاتے ہیں لیکن اس مسئلے کو آج تک کوئی حل نہیں کر سکا کئی برسوں سے اس موضوع پر بحث چل رہی ہے کہ اس کے تیزی سے پھیلتے ہوئے اثرات پر کس طرح قابو پایا جائے اس نے معاشرے میں جو خرابیاں پیدا کی ہیں ان کو کیسے دور کیا جائے اور اس کی روک تھام کیلئے کیا انتظامات کئے جائیں ؟ اس سوال کا سیدھا جواب تو یہ ہے کہ قانون ۔جب تک لوگوں میں قانون اور سزا کا خوف نہیں ہو گا بد عنوانی تو کیا ریاست کا ذرہ بھی ٹس سے مس نہیں ہو گا ،قانون میں لچک کی بجائے سختی پیدا کی جائے تاکہ لوگ اس سے ڈریں ،قانون اور اس کے آرٹیکل ، پیراگراف ،دفعائیں اور ان سے منسلک تمام باتیں عوام کو میڈیا کے ذریعے صاف صاف بتا دینی چاہئیں جس میں جواب دہی کا احساس پیدا کیا جائے اور نہ صرف احساس پیدا کیا جائے بلکہ جواب دہ بنایا جائے یعنی لوگوں کو محسوس ہو کہ ان کے غلط کام کرنے سے انہیں قانون کے حوالے کیا جائے گا اور جرم ثابت ہونے پر سزا دی جائے گی،لوگوں کے دلوں میں خوف رہنا چاہئے کہ اگر انہوں نے غلط کام کیا اور بد عنوانی کا سہارا لیا تو قانون انہیں دیکھ رہا ہے، اس کے ہاتھ لمبے ہیں اور سزا بھگتنی پڑے گی ،یہ ہی ایک راستہ ہے جس سے لوگوں کو نہ صرف غلط کاریوں سے روکا جا سکتا ہے بلکہ بد عنوانی کو پھیلنے سے بھی روکا جاسکتا ہے ،لہذٰاحکومت کو چاہئے کہ بدعنوانی کی اس وبا کو ختم کرنے کیلئے اوپر سے پہل کی جائے اعلیٰ افسران اور سیاست دان جو اس لعنت میں ملوث ہیں انکے خلاف فوری ایکشن لیا جائے اور ذرا سی بھی سستی نامناسب ہے۔
Law
مغربی ممالک میں اسی راہ اور نظم وضبط پر چلتے ہوئے لوگ جرم نہیں کرتے، مغربی ممالک میں پولیس کا نام ہی اچھے اچھوں کی سٹی گم کر دیتا ہے ،کیونکہ لوگ قانون کی قدر اور عزت کرتے ہیں اور کوئی ایسا کام نہیں کرتے کہ پولیس سے واسطہ پڑے، مغربی اور خاص طور پر جرمن قانون کے بارے میں چند سطروں یا اوراق میں تحریر کرنا ناممکن ہے ،لیکن اگر مغربی ممالک سے میل کھاتا ہوا قانون کا بیس فیصد حصہ بھی پاکستان میں رائج ہو جائے تو بھی جرائم اور بد عنوانیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ بد عنوانی کے خاتمے کیلئے جن اقدامات کی سخت ضرورت ہے آج تک کسی حکومت نے نہیں کئے اور آج ملک میں بدعنوانی کا راج ہے ،ہونا تو یہ چاہئے کہ وہ شعبے جو بہت زیادہ اہم ہیں اور جن پر ملک کے مستقبل اور نئی نسل کے عروج کا انحصار ہے ان پر زیادہ توجہ دینی چاہئے مثال کے طور پر تعلیم ،جو ہر فرد کی ضرورت بھی ہے اور ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ناگزیر بھی،کم سے کم اس شعبے کو بدعنوانی سے پاک ہونا چاہئے اور ایک پیسے کی رشوت نہیں ہونی چاہئے تاکہ بچے کو حصول تعلیم کے مساوی مواقع حاصل ہوں لیکن افسوس کہ یہ شعبہ بھی بد عنوانی سے پاک نہیں جس کی وجہ سے تعلیمی معیار گرتا جارہا ہے،اور تعلیم کے نام پر بزنس شروع کر دیا گیا ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی رپورٹس اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان میں سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے علاوہ صحت اور تعلیم جیسے نازک اور حساس شعبے بھی اوپر سے نیچے تک بدعنوانی میں ڈوبے ہوئے ہیں،حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی حالت اتنی دگرگوں ہے کہ بنگلا دیش،بھوٹان نیپال جیسے چھوٹے ممالک ہر لحاظ سے بہتر ہیں،علاوہ ازیں عوام کا تجربہ اس سے زیادہ اور کیا تلخ آمیز ہو گا کہ عدالتوں میں پچانوے فیصد عملہ رشوت خور ہے ،جہاں وہ انصاف کی تلاش میں نسل در نسل صبح و شام خوار ہوتے ہیں اور مقدمات کا نہ فیصلہ ہوتا نہ رد کیا جاتا ہے نہ واپس لیا جاتا ہے اور ایک ایسے جال میں پھانس دیا جاتا ہے جیسے ایک محاورہ ہے کہ نہ اگل سکتے ہیں نہ نگل سکتے ہیں۔
بد عنوانی سے نمٹنے کے لئے قوانین موجود ہیں اور ان میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے لیکن حالت بدستور ابتر ہوتی جارہی ہے ،سوال یہ ہے کہ سب کچھ موجود ہے تو روکاوٹ کیا ہے؟تو اس لاعلاج بیماری کا ایک نسخہ یہ بھی ہے کہ جب تک اعلیٰ سطح پر ہونے والی بد عنوانی کرنے والوں کی گردن نہیں پکڑی جائے گی اس وقت تک ملک سے اس ناسور کا خاتمہ نہیں ہو گا اور نہ ہی ملک ترقی کرے گالیکن سوال یہ ہے کہ ایک کلرک کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا تو کسی منسٹر یا وزیر اعظم پر کون ہاتھ ڈالے گا ،رہ سہہ کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے تو انکی بد عائیں جب کسی جنرل تک پہنچتی ہیں تو وہ بغل سے چھڑی نکال کر ان جمہوریت کے ٹھیکیداروں، پاسداروں کے سروں پر ٹنٹناتا ہے تو انہیں بواسیر ہو جاتی ہے دیسی حکیم سے علاج کی بجائے بیرون ملک بھاگ جاتے ہیں اور گوروں کے تلوے چاٹتے ہیںاور اپنامقصد حاصل کرنے کیلئے ملک و قوم کو داؤ پر لگا دیتے ہیں ایسے لوگوں کو محب وطن کہا جائے یا غدار؟ گھر کا سرپرست اپنے خاندان سے، مالی باغ سے ،ڈاکٹر مریض سے، وکیل کلائینٹ سے ،استاد طالب علم سے، رہنما قوم سے مخلص،بے لوث، ایثار پسند نہیں ہوگا تو ملک میں کس چیز کا راج ہوگا ؟ خوشحالی کا یا بد عنوانی کا؟ اس لئے اگر ملک کو زندہ تابندہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ان رہنماؤں پر تکیہ کرنے کی بجائے اپنی خواہشات پر قابو پانا ہوگا،کہ قناعت ،کفایت، حمایت، صداقت، شرافت، محبت، عنایت، عبادت، یہ الفاظ ہمارے ہیں اور ہم ان پر عمل نہیں کرتے اس لئے ہم ایک برباد، ترقی پذیراور جاہل قوم کے نام سے پکارے جاتے ہیں جبکہ ہمارے ان الفاظ کی نقالی کرنے والے مہذب اور ترقی یافتہ ہیں۔