تحریر : میر افسر امان اس سے قبل کہ پاکستان کی چار بڑی سیاسی پارٹیوں کے سربرائوں پر کرپشن کے الزامات اور سپریم کورٹ میں جاری مقدمات پر بات کریں پہلے مسلمانوں کے قومی خزانے کے بارے میںمسلمانوں کے آئیڈلز کی درخشندہ روایات بیان کرتے ہیںجو دنیا میں شاید کوئی اور قوم پیش نہ کر سکے۔حضرت عمر فرماتے ہیں کہ میں ایک دن مدینہ میں حضور حضرت محمد صلہ اللہ علیہ وسلم کے گھر گیا۔ کیا دیکھتا ہوں مسلمانوں کی ریاست مدینہ کے سربراہ حضورۖ ایک چٹائی پر ننگے بدن لیٹے ہوئے تھے۔ جب حضورۖ اٰٹھ کر بیٹھنے لگے تو میں نے دیکھا کہ حضورۖ کے جسم پر چٹائی کے نشان سامنے نظر آنے لگے۔
میرے بے ساختہ آنسو جاری ہو گئے۔میں نے کہا کہ آپۖ دوجہانوں کے مالک اور مسلمانوں کی ریاست کے سربراہ آپۖ کی یہ حالت۔ یہ تو اللہ کے پیغمبر ۖ تھے اگر مسلمانوں کے خلفائے راشدین کی بات کی جائے توخلیفہ اول کی بیوی نے ایک دفعہ سویٹ ڈش بنا کر ان کو کھانے میں پیش کی۔ آپ نے معلوم کیا یہ فاضل رقم کہاں سے آئی۔ان کی اہلیہ نے کہاکہ مسلمانوں کے بیت المال سے جو ہمیں وظیفہ ملتا ہے اس میں سے میں نے تھوڑا تھوڑا بچا کر آج آپ کے لیے سویٹ ڈش تیار کی ہے۔ خلیفہ اول نے بیت المال کے انچارج سے کہا کہ آئندہ ہمارے وظیفہ میں سے سویٹ ڈش جتنے خرچ کی رقم منع کر کے وظیفہ دیا کرو۔خلیفہ دوم کے لیے مشہور ہے کہ جب خلافت کے کام کر رہے ہوتے تو بیت المال کے خرچے سے روشنی کا انتظام ہوتا تھا ۔جب اپنے ذاتی کام کرتے تھے بیت المال کے پیسے جلنے والی روشنی بند کر دیتے اور ذاتی پیسے سے روشنی کا انتظام کیا کرتے تھے۔
خلیفہ سوم بہت مال دار شخص تھے۔کسی وقت خلافت کے دور میں بیت المال کی بات ہو رہی تھی تو مسلمانوں سے فرمایاکہ جب میں خلیفہ نہیں بنا تھا تو عرب میں سب سے زیادہ اونٹوں اور بکریوں کا مالک تھا۔ اب جب میں مسلمانوں کا خلیفہ ہوں تو ایک اونٹ ہے جس پر حج کرنے جاتا ہوں اور ایک بکری ہے جس کا دودھ پیتا ہوں۔جب مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو انکے بیٹے نے مسلمانوں سے کہا کہ آپ کے خلیفہ چند سور درم چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے پہلے دور حکومتوں میں تو کرپشن کا تو نام و نشان تک نہیں تھا۔ اور یہ یہی مسلما نوں کے آئیڈیلز حکمران ہیں۔ ان ہی کی سیرت بیان کر کر کے علماء مسلمانوں کے دل گرماتے رہتے ہیں اور دعائیں کرتے ہیں کہ مسلمانوں کا وہ دور واپس آئے۔مسلمانوں کے موجودہ حکمران ہیں کہ جب انہیں عوام کے خزانے کاامین بننے کے لیے عوام منتخب کرتے ہیں تو وہ خیانت کے مرتکب ہو کرمسلمانوں کے بیت المال کو لوٹ کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ کرپشن کے پیسوںکو باہر ملکوں میں منتقل کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ ا قتدار میں ہوتے ہیںلہٰذا ان سے کرپشن کے پیسے واپس وصول کر کے خزانے میں داخل کرنے والے اداروں کے سربراہ ان کی مرضی اور منشا سے لگائے جاتے ہیںلہٰذا وہ ان کی کرپشن پر پردہ ڈال دیتے ہیںجس کا اظہار سپریم کورٹ نے کرپشن کے مقدمے کے دوران اپنے ریمارکس میں بھی کیا۔ اب بے بس عوام کے پاس ایک سپریم کورٹ ہی رہ گئی ہے جو ان کرپٹ حکمرانوں سے عوام کے لوٹے ہوئے پیسے واپس دلائے۔
سپریم کورٹ میں ملک کے موجودہ حکمرانوں کے خلاف کرپشن کے مقدمے چل رہے ہیں۔ انشا اللہ جلددودھ کادودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ صاحبو!دور کی بات نہیں ہے جب پاکستان بنا تو ایک وقت حکومت ِپاکستان کی قابینہ کی میٹینگ ہونی تھی جسے قائد اعظم نے خطاب کرنا تھا۔ قائد کے سیکر ٹیری نے اجازت لینی چاہی کہ قابینہ کے ممبران کو میٹینگ کے دوران چاہے پیش کی جائے یا کہ کافی۔ قائد نے حیرانی سے پوچھا کیا یہ لوگ گھر سے چائے پی کر نہیں آئیں گے۔ملک پر تین تین بارحکومت کرنے والی( ن) مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سربرائوں پر کرپشن کے مقدمے قائم ہیں۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین پر اس سے قبل کرپشن کے مقدمے چلے۔ان پر ملک سے لوٹی ہوئی کرپشن سوئس بنکوں میں رکھنے اور سرے محل خریدنے کا الزام تھا۔ تیسر ی قوت تحریک انصاف ہے اس پر بھی بیرون ملک سے فنڈنگ کا الزام لیکشن کمیشن میں چل رہا ہے۔بنی گالہ کے گھر پر پیسے کی منی ٹریل کا بھی الزام کا مقدمہ چل رہا ہے۔ (ن) مسلم لیگ کے سربراہ اور ملک کے وزیر اعظم کی یہ منطق سمجھ سے باہر ہے کہ جی آئی ٹی میں منی ٹریل کے جواب دینے کے بعد باہر نکل کر عوام کو اپنی لکھی ہوئی تقریرپڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ ابھی بیس کروڑ عوام کی جے آئی ٹی میں آئندہ سال پیش ہونگے جیسے ٢٠١٣ء میںاکثریت سے سرخرو ہوئے تھے آئندہ بھی سرخ رو ہونگے۔ عوام کے نمائندوں کے خلاف کٹ پتلیوں کے ایجنڈے کامیاب نہیں ہونے دیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ کہتے ہیں یہ فوج اور سپریم کورٹ کی طرف اشارہ ہے۔ بھئی لوگ آپ کوخزانے پر امین بن کر بیٹھنے کے لیے ووٹ دیتے ہیں۔ خزانے لوٹنے کے اختیارات تو نہیں دیتے۔ ٹھیک ہے آپ کو پاکستان کے لوگوں نے نظام حکومت چلانے اور کے لیے منتخب کیا ہے۔ آپ پر کرپشن کا الزام ہے تو عدالت میں پیش ہوکر اپنی صفائی پیش کریں اور سرخ ہو جائیں ۔ یہ کسی کٹ پتلی والا الزام عوام کی سمجھ نہیں آ رہا۔ملک میںتین تین بار حکومت کرنے والی دونوں پارٹیوں(ن) مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی کرپشن کی عوام میں شعور پیدا کرنے کے لیے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے بہت کام کیا ہے۔
ملک میں جلسے جلوس ریلیاںسیمینار منعقد کیں۔ پارلیمنٹ میں بھی کوشش کی۔ بلآخر سپریم کورٹ میں کرپشن کے خلاف درخواست دی جس پر مقدمہ قائم ہوا۔اس مقدمے کے فیصلہ کے بعد پیپلز پارٹی اور جس نے بھی کرپشن کی ہے مقدمے قائم ہونے چاہیے ہیں۔ صرف نواز شریف کا ہی احتساب نہیں سارے حکمرانوں کا احتساب ہونا چاہیے۔تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی خیبر پختونخواہ میں مخلوط صوبائی حکومت ہے۔جس پر کرپشن کا کوئی بھی مقدمہ قائم نہیں ہوا۔اصل میں تو ایک قوت جماعت اسلامی ہے جس کے سربراہ اور نہ ہی اس جماعت کے کسی فرد پر کرپشن کا الزام اور نہ ہی کبھی بھی اس جماعت نے پلاٹ پرمنٹ کی سیاست کی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آئندہ الیکشن میں صاف اور شفاف کردار رکھنے والی پارٹی کو عوام اقتدار میں لائیں۔ کرپشن ہی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ کرپشن سے ہی دہشت گرد ملک میں دہشت گردی کرتے ہیں۔اللہ ہمار ملکِ پاکستان کا محافط ہو آمین۔