کرونا ایک سپیڈبریکر

Corunavirus

Corunavirus

تحریر : ممتاز ملک.پیرس

اللہ پاک نے انسان کو ایسی ایسی خصوصیات سے نواز رکھا ہے جس کا اکثر علم خود اسے بھی مرتے دم تک نہیں ہو پاتا۔ کرونا نے ہمیں زندگی گزارنے کا نیا انداز سکھایا ہے یا یوں کہیئے کہ ایک سے ڈیڑھ صدی بعد دوبارہ سے پچھلی زندگی کی جانب لوٹایا ہے۔ ہم جو سرکش گھوڑے کی طرح بے لگام بے تکے مقاصد کے حصول کے لیئے سرپٹ دوڑے جا رہے تھے۔ نہ ہمارے پاس خدا کی یاد کے لیئے وقت تھا نہ ہی رشتوں کے لیئے۔ وہاں کرونا ایک سپیڈبریکر کی طرح ہماری زندگیوں میں داخل ہوا۔

تب ہمیں کھل کر معلوم ہوا کہ ہمیں کسی کا خوف نہیں سوائے موت کے ۔ چلو شکر یے کہ موت کا ہی سہی کچھ خوف تو ہے ابھی ۔ لیکن یہ بھی چند ہی روز میں جاتا رہا ۔ اب ہم کب تک مرغیوں کی طرح گھر کے ڈربے میں دبک کر بیٹھتے ۔ ہمارے بنا بازار ویران ہیں ۔ سینیما خالی ۔ ریسٹورینٹ اجاڑ اور جانور سکھی ۔ ہواوں نے سکھ کا سانس لیا ۔ ندیاں گنگنائیں ۔ آسمان صاف اور اجلا ہو گیا ۔ سورج کی روشنی اور بھی روشن ہو گئی ۔ چاند اور بھی جگمگا اٹھا ۔ حد تو یہ ہے کہ اکثر جبگلوں سے جانور انسان نامی دردندے کو ناپید سجھ کر شہروں اور سڑکوں پر مٹر گشتی کرنے کو نکل پڑے ۔

پہلے سالوں دہائیوں بلکہ صدیوں کے لیئے کہانی کا آغاز یہ کہہ کر کیا جاتا تھا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ۔۔۔۔اور آج ہم اس زمانے میں ہیں کہ محض کچھ روز میں ہی ہم اس آغاز تک آ پہنچے جیسے کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ لوگ ایک ملک سے کسی دوسرے ملک میں کسی پروگرام میں شرکت کرنے لیئے جانے کے واسطے ہفتوں مہینوں پہلے ٹکٹ لیا کرتے تھے ۔ ویزہ لیا کرتے تھے ۔ پھر جانے کے لیئے خاص ملبوسات خریدے جاتے یا بنوائے جاتے تھے ۔ پروگرام کی نوعیت کے حساب سے مواد تیار کیا جاتا تھا ۔ اپنے کاموں سے چھٹیاں لی جاتی تھیں ۔

لوگ مخصوص دن اور وقت پر ٹکٹ لیئے ایئر پورٹ پہنچتے ۔گھنٹوں کا سفر کرتے ۔ منتخب منزل تک پہنچتے ۔ لوگ انہیں ایئرپورٹ پر لینے بھی آیا کرتے تھے ۔ ان کی رہائش کا انتظام کیا جاتا ۔ کئی لوگوں کو ان کو گھمانے اور کھلانے پلانے کی ذمہداری دی جاتی تھی ۔ پروگراموں میں ان کی کئی روز شرکت ہوتی ۔ جاتے ہوئے ایک لفافہ انہیں شکریئے کیساتھ تھمایا جاتا ۔ پھر وہ ہزاروں میل کا سفر کر کے اسی طرح واپس ہوا کرتے تھے ۔ اففففففف۔

سوچیئے آپ پڑھتے پڑھتے تھک گئے تو جانے اور بلانے والوں کا کیا حال ہوتا ہو گا ۔ پھر بھی خاطر مدارات آو بھگت میں حسب توفیق مہمان و میزبان کیڑے نکال ہی لیا کرتے تھے ۔ یہ ہیں پچھلے زمانے کی باتیں یعنی قبل از کرونا کی ۔
اور بعد از کرونا راوی کتنے چین ہی چین لکھتا ہے ۔ سچ پوچھیں تو دوڑتی زندگی کو سانس لینے کا موقع دیا ہے اس کرونا سپیڈ بریکر نے۔

نہ اچانک آدھمکنے والے مہمان ہیں تو نہ انکی خاطر سارا سارا دن کچن میں کھپنے کی چخ چخ ۔ نہ ہی بے تکلفی کے نام پر بدتمیز دوست جو طوفان کی طرح آپ کا ہر شیڈول تباہ کرنے میں اہم رول نبھاتے ہیں ۔ نہ دوڑ دوڑ کر بسیں ٹرین لینے کا جھنجھٹ ہے ۔ پھر بھی ہم ساری دنیا سے رابطے میں ہیں ۔ ادھر انگلی لگائی ادھر جادوئی آئینہ ہمارے روبرو ہمارے مطلوب حاضر ہیں۔

کبھی شاعر نے فرمایا تھا کہ
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
بس زرا گردن جھکائی دیکھ لی
اگر وہی شاعر آج موجود ہوتے تو یقینا فرماتے کہ
یہ جہاں آباد موبائل میں ہے
بس ذرا انگلی سے چھو کر دیکھ لو

جام جہاں نما کی طرح اس چھوٹی سے سکرین میں انٹرنیٹ کا جادو پھونکیئے اور ادھر سے دنیا کے کسی بھی کونے سے دعوت ملی، ادھر آپ نے اپنی مصروفیات کا کیلنڈر دیکھا ، یہاں آپ نے اوکے کیا ۔ وہاں آپ کا پوسٹر بن گیا۔ لو جی مقررہ روز دنیا بھر کا میلہ ایک کلک پر اکٹھا ہو گیا ۔ نہ میک اپ اور ملبوسات کی پریشانی اور نہ وقت کا ضیاع ۔ خواتین تو آرام سے لپ اسٹک لگا کر صرف دوپٹہ ہی تبدیل کر کے بیٹھ جائیں تو نئی نئی لگنے لگتی ہیں ھھھھھھ
وہاں وہاں سے لوگ اکٹھے ہو گئے جہاں سے آپ ایک ساتھ ملاقات کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ۔

وہ وہ قیمتی ہستیاں آپ کے روبرو موجود ہونگی ۔ ۔ پروگرام کے میزبان کی بھی ہینگ لگی نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے کے مصداق واہ واہ ہو گئی ۔ جبکہ عام حالات میں یعنی قبل از کرونا میں ایسے عالمی پروگرام کے انعقاد پر تنظیمات کے کروڑوں روپے لگ جاتے جس میں بیس بائیس ممالک سے مہمانان کو بلانے، ٹہرانے، ٹہلانے، لانے ، لیجانے اور نوازنے کا موقع ہوتا تو ۔ ہو سکتا ہے آگے چل کر اس میں بھی مہمانان کسی فیس کا مطالبہ کر دیں ۔ لیکن فی الحال تو یہ ٹرانسمیشن کی ابھی آزمائشی نشریات ہیں ۔ آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا ۔۔

گھروں میں سکون ہو گیا ہے ۔ ہر ایک خاموشی سے فون یا لیپ ٹاپ پر اپنا کام بھی کیئے جا رہا ہے ۔ گھر سے بھی وابستہ ہے ۔ اور دنیا بھی نبھا رہا ہے ۔ کوئی کچھ بھی کہے زمانہ بعد از کرونا نے ہمیں تو بہت آرام دیا ۔ کرونا تیرا شکریہ

بس کسی کے پیارے اس سے جدا نہ ہوں تو اس زمانے نے ہمیں زندگی کا نیا سبق پڑھا دیا ہے ۔ کہ دنیا ہم سے پہلے بھی چل رہی تھی اور ہمارے بعد بھی چلتی رہے گی سو اپنے آپ کو میں میں میں کا ترانہ سنانے سے باز آ جاو ۔۔۔
میرا ایک قطعہ ہے کہ

تجھے ڈھونڈنے نکلتے کسی روز پا ہی لیتے
مگر ان ہتھیلیوں میں وہ سفر کہیں نہیں تھا

میں ہوں خوش گمان ورنہ مجھے سوچنا تھا لازم
میرے جانے سے اجڑتا وہ شہر کہیں نہیں تھا

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر : ممتاز ملک.پیرس