تحریر:عفت فوزیہ ہماری زندگیاں بے شمار غموں سے اذیت کا شکار رہتی ھیں، لیکن یہ غم ہمیں زندگی کا شعور عطا کرتے ہیں۔اور ہمیں آمادہ کرتے ہیں کہ ہم ان غموں کا مقابلہ کریں اور ایسی تدابیر کر یں جو غموں کو کم سے کم کرنے میں مددگار ہوں۔غم ہمیں پھر سے پنپنے اور جینے کا حوصلہ دیتے ہیں۔سانحہ پشاور بھی ایسا ہی ایک سانحہ ہے ایک ایسا عظیم سانحہ جس نے پورے ملک کو سوگوار کر دیا اور کوئی صاحب اولاداور صاحب دل ایسانہ تھا جو اس پہ اشکبار نہ ہوا ہو،اس سانحے نے نہ صرف قوم بلکہ حکومت کے ایوانوں کو بھی ہلا کے رکھ دیا۔
اس واقعے نے یہ سوال بھی اتھایا کہ اس کا ذمہ دار کون؟؟؟بحث چلی اور ایک دوسرے کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا،لیکن بحث برائے بحث حقیقت یہ تھی کہ اس کی ذمہ دار ہماری غفلت تھی ہماری وہ ذاتی جنگیں تھیں جب فوج ان ظالمانہ عناصر سے برسرِپیکار تھی تو ہم اپنے فرائض کو پسِ پشت ڈالکر ملک کو ترقی کے بجائے سیاسی اکھاڑہ بنائے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھنچنے اور ایک دوسرے کا بد سے بدترین چہرہ دکھا نے میں مصروف تھے۔مقام افسوس کہ ہمیں اپنی کمزوریوں کا ادراک ہی نہیں ہوتا ہم اپنی غفلتوں کو سمجھ ہی نہیں پاتے اور اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے ذاتی مفادات اور نفسانفسی میں گم رہتے ہیںیا پھر ایسے حادثوں کے منتظر رہتے ہیں۔
ایسے ہی جاں گزیں حالات میں وزیراعظم کے مشاورتی اجلاس کے اقدام قابلِ تحسین اور راست قدم ہیںمگر کمال تو یہ کے، اس پہ بھی نکتہ چینی اور مارشل لاء کی آمد کا نقارہ گردانا جا رہا ہے۔اگر فوجی عدالتیں قائم ہونگی تو منی مارشل لاء ہو گا،آصف زرداری نے تو یہاں تک کہہ دیاکہ ایسا نہ ہو کہ میں اور،نواز شریف ہی جیل میں ہوں۔جبکہ ایم کیو ایم کو بھی یہی خطرات لاحق ہیں،جماعت اسلامی بھی کچھ ایسے بیان داغتی نظر آتی ہے اس میں کیا بھید چھپا ہے ہمیں تو چور کی داڑھی میں تنکے کا گمان ہوتا ہے۔خدارا ان نکتہ چینیوں سے نکل کر ملک اور عوام کے متعلق سوچیں اس وقت ہمیں ایسے ناسوروں کو ختم کرنے کی جدوجہد کرنی ہے جو ہماری ترقی اور مستقبل کے دشمن ہیں۔
Terrorism
ان سے نمٹنا صرف فوج کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہم سب کا قومی فریضہ ھے، کیونکہ فصلِ گل اسی زمین سے نمو پانی ہے۔ہم ببانگِ دہل اپنے حقوق کا تقاضہ تو کرتے ہیں مگر اپنے فرائض کو فراموش کر دیتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سیاسی و ذاتی مفادات بھلا کر دہشت گردی اور فرقہ واریت کامقابلہ کیا جائے۔ گذشتہ کیا ہوا؟کیوں ہوا؟اس کے بجائے اب یہ نہ ہو پہ توجہ کی جائے۔ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں تو اس پہ بحث چہء معنی وارد، یہ محض وقت کا ضیاع ہے تدبیر اورتدارک کی بہترین حکمتِ عملی کو اپنا کربچے کھچے گلشن کو بارآورکر لینا ہی دانشمندی کا تقاضا ہے۔
اس سلسلے میں بروقت اور فوری انصاف،انسدادِجرم،فوری سزائیں اور ان پر عملدرآمد ہی ایسا واحد نصب العین ہے جس سے نا صرف امن و امان بلکہ قوم کی تحفظات کے قیام کو بھی عمل میں لایا جا سکتا ہے۔اسلامی سزائیں نافذ کی جائیں تو جرم کی رفتارکم ہوتے ہوتے ختم ہو سکتی ہے۔ ماضی کے گذشتہ اوراق کا جائزہ لیں تو یہ بات روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ جب تک مسلمانوں کے دورِحکومت میں عدل و انصاف کا توازن رہا وہ دنیا پہ چھائے رہے،جوں ہی ظالم کی رسی دراز ہوئی معاشرہ تباہی کے دھانے پہ آ کھڑا ہوا۔ہم بھی آج اسی اذیت کا شکار ہیںاور اب انتہا ہو چکی ہے،دہشت گرد انسان کہلانے کے مستحق نہیں اور نہ ہی دائرہِ اسلام میںشامل ہیں کیونکہ اسلام بے گناہوں کی زندگی کو ختم کرنے کا درس نہیں دیتا خواہ وہ کوئی کافر ہی کیوں نہ ہو چہء جائیکہ مسلمان اور وہ بھی معصوم بچے۔اب ان درندوں کو مذید ڈھیل دینا اپنی نسل کے لیے خطرہ در خطرہ پیدا کرنا ہے۔لہذا اب ہمیں متحد اور مضبوط یک جان ہونا ہوگا تبھی ایک مضبوط پاکستان بنے گا اور ان معصوم شہیدوں کے خون کا خراج ادا ہوگا۔