اسلام آباد (جیوڈیسک) انسداد منشیات فورس (اے این ایف) نے مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثناء اللہ کو حراست میں لے لیا۔ ترجمان اے این ایف ریاض سومرو نے کہا ہے کہ رانا ثناء اللہ کی گاڑی سے منشیات کی بھاری مقدار برآمد ہوئی ہے، ان کے خلاف نارکوٹکس ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جارہا ہے۔
مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر اور رکن قومی اسمبلی رانا ثناء اللہ کو فیصل آباد سے لاہور جاتے ہوئے انسداد منشیات فورس نے موٹر وے پر سکھیکی کے مقم پر حراست میں لیا۔
ذرائع کے مطابق رانا ثناء اللہ کی گاڑی FH255 تین بجکر 19 منٹ پر لاہور ٹول پلازہ سے ایگزٹ ہوئی تاہم ان کا دوپہر ڈیڑھ بجے کے بعد سے خاندان کے کسی فرد سے رابطہ نہیں ہوا، ان کے ذاتی گارڈز اور ڈرائیور کے نمبر بھی بند مل رہے تھے۔
مسلم لیگ ن کے مطابق رانا ثناء اللہ لاہور میں پارٹی اجلاس میں شرکت کے لیے جا رہے تھے تاہم سکھیکی کے بعد ان سے رابطہ منقطع ہو گیا۔
انسداد منشیات فورس کے ترجمان ریاض سومرو نے رانا ثناء للہ کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اے این ایف لاہور نے گرفتار کیا ہے، رانا ثناء اللہ کی گاڑی سے منشیات کی بھاری مقدار برآمد ہوئی ہے اور ان کے خلاف نارکوٹکس ایکٹ کے تحت مقدمہ بنا ہے۔
ترجمان اے این ایف کے مطابق رانا ثناء اللہ کی گرفتاری ٹھوس شواہد کی روشنی میں کی گئی ہے اور انہیں ریمانڈ کے لیے منگل کو انسداد منشیات کورٹ میں پیش کیا جائے گا، معلومات جلد منظر عام پر لائی جائیں گی۔
خیال رہے کہ قومی اسمبلی قواعد کے مطابق کسی بھی رکن کی گرفتاری کی صورت میں اسپیکر کو آگاہ کرنا ضروری ہوتا ہے تاہم اسپیکر اسد قیصر اس وقت سرکاری دورے پر ماسکو میں ہیں اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری عمرہ کی ادائیگی کیلئے سعودی عرب میں ہیں۔ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ حکام کے مطابق وہ رانا ثناء اللہ کی گرفتاری کی باضابطہ اطلاع کے منتظر ہیں۔
وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ رانا ثناء اللہ کو 15 کلوگرام ہیروئن برآمد ہونے پر گرفتار کیا گیا جس کی مالیت 15 سے 20 کروڑ روپے ہے۔
معاون خصوصی برائے اطلاعات نے مزید کہا کہ اس گرفتاری میں حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں، گرفتاری ایک آزاد ادارے نے کی ہے، مسلم لیگ ن نے جو مؤقف پیش کرنا ہے وہ صبح عدالت میں پیش کرے۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ تین ماہ قبل اے این ایف کے اسپیشل انویسٹی گیشن سیل نے 6 سے 7 گرفتاریاں کی تھیں جن سے تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ یہ لوگ رانا ثناء اللہ کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اور پھر ان شواہد اور ان کی کچھ کال ریکارڈنگ کی بنیاد پر بخاری نامی شخص کو حراست میں لیا گیا، ان پر الزام ہے کہ یہ لوگ کالعدم تنظیموں کے لیے فنڈ جمع کرتے تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ان ہی شواہد کی بناء پر رانا ثناء اللہ کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق اے این ایف لاہور ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ جو ایک حاضر سروس بریگیڈیئر بھی ہیں، ان کی نگرانی میں اسپیشل انویسٹی گیشن سیل نے لاہور کے علاقے سمن آباد میں رانا ثناء اللہ کے ڈیرے پر چھاپہ بھی مارا تھا جہاں مبینہ طور پر لیگی رہنما کے خاندان کے کچھ لوگ موجود تھے تاہم چھاپے سے قبل وہ لوگ وہاں سے جا چکے تھے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے رانا ثناء اللہ کی گرفتاری کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ رانا ثناء کی گرفتاری لاقانونیت اور سیاسی انتقام کی بدترین مثال ہے۔
شہباز شریف نے الزام عائد کیا کہ وزیراعظم کے حکم پر اداروں کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کی گھناؤنی مثال قائم کی گئی، کبھی نیب، کبھی نیب ٹو کا سیاسی مخالفین کی گرفتاری اور دباؤ کے لیے استعمال افسوسناک ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اے این ایف کا سیاسی مخالفین کی گرفتار ی اور دباؤ کے لیے استعمال افسوسناک ہے۔
صدر ن لیگ نے مطالبہ کیا کہ رانا ثناء اللہ کو فوری طور پر عدالت میں پیش کیا جائے اور بتایا جائے ان پر کیا الزام ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ رانا ثناءاللہ کی گرفتاری میں عمران خان کا ذاتی عناد کھل کر سامنے آگیا ہے۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق گورنر پنجاب محمد زبیر کا کہنا ہے کہ رانا ثناء اللہ کا موبائل فون بند جا رہا ہے اور ان سے کسی قسم کا رابطہ نہیں ہو پا رہا۔
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے رانا ثناء اللہ کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی گرفتاری میں براہ راست وزیراعظم ملوث ہیں۔
مریم نواز نے کہا کہ اس سے زیادہ بے ہودہ صورتحال نہیں ہو سکتی، اے این ایف کا رانا ثناء اللہ سے کیا لینا دینا؟
رہنما ن لیگ نے کہا کہ رانا ثناءاللہ کو جرات مندانہ مؤقف کی وجہ سے گرفتار کیا گیا، ‘جعلی اعظم’ چھوٹا ذہن رکھنے والی شخصیت ہے۔
رانا ثناء اللہ کے داماد شہریار کا بتانا ہے کہ مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر دوپہر ڈیڑھ بجے فیصل آباد سے لاہور کے لیے روانہ ہوئے، 2 بجے رانا ثناء اللہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہیں ہو سکا۔
شہریار کا مزید بتانا ہے کہ رانا ثناء اللہ کو موٹر وے سے حراست میں لیا گیا، ہمیں نہیں معلوم کہ انہیں کہاں لے کر گئے ہیں۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے رانا ثناءاللہ کی گرفتاری پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اے این ایف کا رانا ثناءاللہ کو گرفتار کرنا سیاسی انتقام کی مایوس کن کوشش ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ رانا ثناء اللہ ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سخت ترین ناقد رہے اور موجودہ حکومت کے سخت ترین ناقدین میں مؤثر ترین آواز ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی بنیادوں پر گرفتاریاں حکومت کی کمزوری اور مایوسی کو ظاہر کرتی ہیں۔
جیو نیوز کے اینکر پرسن اور سینئر صحافی حامد میر نے بتایا کہ رانا ثناء اللہ تین چار ہفتے سے مجھے اسلام آباد میں ملتے تھے تو بتاتے تھے کہ شاید یہ ہماری آخری ملاقات ہو کیونکہ مجھے گرفتار کر لیا جائے گا۔
حامد میر نے کہا کہ جب پوچھا جاتا کہ کیوں گرفتار کریں گے تو رانا ثناء اللہ کہتے کہ وہ ابھی مجھے گرفتار کرنے کی وجوہات ڈھونڈ رہے ہیں۔
خیال رہے کہ رانا ثناء اللہ مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر اور رکن قومی اسمبلی ہیں۔ وہ عام انتخابات میں ن لیگ کے ٹکٹ پر این اے 106 فیصل آباد سے ایم این اے منتخب ہوئے۔