تحریر : سید توقیر زیدی وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہو رہا ہے، دْنیا میں جس طرح کی نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں پاکستان اس میں صحیح مقام پر کھڑا ہے، پاکستان کے چین، روس اور مشرقِ وسطیٰ کے ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ دْنیا نے نہیں، بلکہ کشمیریوں نے حل کرنا ہے، جو لوگ ایک دفعہ خون دینے کے لئے تیار ہو جائیں اْن کو کوئی نہیں دبا سکتا۔ انہوں نے کہا جب سے افغانستان میں بیرونی افواج میں کمی ہوئی اور مشرقِ وسطیٰ جنگ و جدل کا میدان بن رہا ہے۔ امریکہ بھی اپنی پالیسی تبدیل کر رہا ہے، امریکہ نے ایشیا کو اپنی پالیسی کا محور بنایا ہے، جس کا مقصد علاقے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو روکنا ہے، ظاہر ہے اِس میں بھارت زیادہ فِٹ ہوتا ہے، اِس لئے بھارت اور امریکہ کے تعاون میں اضافہ ہو رہا ہے دفاعی معاہدے ہوئے ہیں، بلکہ ایک طرح کا سٹرٹیجک اتحادبن رہا ہے۔
دوسری جانب چین، روس اور دوسرے ممالک نے شنگھائی اتحاد بنایا ہے اور پاکستان بھی علاقائی صورتِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے اِن ممالک سے تعلقات کو بہتر بنانے کی پالیسی کے ساتھ ساتھ امریکہ سے بھی اپنے تعلقات کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ امریکہ سمیت ساری دْنیا کو معلوم ہے کہ پاکستان نے پچھلے تین برس میں دہشت گردی کے خلاف جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ دْنیا میں کوئی حاصل نہیں کر سکا، لیکن بھارت کی خواہش ہے کہ پاکستان کو اس کا کریڈٹ نہ ملے۔ ساری دْنیا میں دہشت گردی کا وبال بڑھ رہا ہے، سرتاج عزیز نے اِن خیالات کا اظہار بی بی سی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ دْنیا کے ملکوں میں دشمنیاں اور دوستیاں کبھی مستقل نہیں ہوتیں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوستیوں اور دشمنیوں کے پیمانے بھی بدل جاتے ہیں۔
اِس لئے اگر آج امریکہ بدلے ہوئے حالات میں نئے دوستوں کی تلاش میں ہے اور اس مقصد کے لئے اپنی خارجہ پالیسی کی تشکیل نو کر رہا ہے تو اِس میں حیرت و استعجاب کی کوئی بات نہیں، امریکہ کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مفاد میں جو چاہے کرے اِسی طرح پاکستان کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ بھی اپنی پالیسی جس طرح چاہے مرتب کرے، امریکہ اگر آج اپنی ضرورتوں کے پیشِ نظر پاکستان سے فاصلے پیدا کر رہا ہے، تو پاکستان بھی اپنے دوستوں کے مشورے سے اپنی پالیسی اس طرح تبدیل کر سکتا ہے، جو اس کے بہترین مفاد میں ہو۔ امریکہ اگر بھارت کے ساتھ مل کر چین کے گرد گھیرا تنگ کر رہا ہے تو ظاہر ہے اس مشن میں پاکستان تو امریکہ کا ساتھ نہیں دے سکتا، اِس لئے امریکہ کوئی ایسا اتحادی ہی تلاش کرے گا جو اس کام میں اس کی معاونت کر سکے اور ظاہر ہے بھارت سے بہتر امریکہ کی اِس سلسلے میں کوئی خدمت نہیں کر سکتا، اِس لئے امریکہ اور بھارت اگر قریب آ رہے ہیں تو آتے رہیں اِس سے پاکستان کا کچھ نہیں بگڑتا۔ پاکستان چین کی دوستی قربان کرکے تو امریکہ کے قریب نہیں رہ سکتا۔
Pak China Economic Corridor
بھارت کو پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر سے بھی پریشانی ہے اور اس کا اظہار بھارت نے کئی بار چین کے سامنے کیا ہے اور چینی رہنماؤں کا جواب سن کر ہر بار مْنہ کی کھائی ہے۔ اب اگر اِس راہداری کی تعمیر کے راستے میں کوئی مْلک بھارت کا ”مددگار” ثابت ہوتا ہے تو بھارت اس کے ساتھ دوستی کی پینگیں نہیں بڑھائے گا تو اس سے اور کِس بات کی امید رکھی جائے؟ دْنیا کو معلوم ہے کہ چین مستقبل کی سپرپاور ہے، امریکہ اگر چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ سے پریشان ہے تو اِس کی یہ پریشانی بھی فطری ہے،لیکن دْنیا میں طاقت کا توازن ہمیشہ ملکوں کے درمیان بدلتا رہتا ہے، کل کی سپر پاور آج اس مقام و مرتبے پر فائز نہیں ہیں تو آنے والے کل کو بھی یہ سہرا کسی دوسرے کے سر سج سکتا ہے اور چین اِس کے لئے اپنے آپ کو تیار کر رہا ہے تو کچھ غلط نہیں کر رہا، پاکستان کو یہ فخر حاصل ہے کہ سپر پاور کی جانب بڑھتی ہوئی ایک عالمی طاقت کے ساتھ اس کے انتہائی قریبی تعلقات ہیں اور وہ ہر آزمائش میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ جب سے پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ شروع ہوا ہے۔
بھارت سمیت کئی ملکوں کو اس سے پریشانی لاحق ہے اِس لئے بھارت نے اب امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانا شروع کر دیا ہے اور افغانستان کے لئے ایسی تجارتی مراعات کا اعلان کیا جا رہا ہے، جس سے افغانستان بھارت کی جانب راغب ہو۔افغانستان کی حکومت میں شامل بہت سے سیاست دان پہلے ہی بھارت کے قریب ہیں اور اپنی اِسی بھارت نوازی کی وجہ سے وہ پاکستان سے یک گونہ مغائرت رکھتے ہیں،حالانکہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان میں امن کی بات کی ہے اور افغان باشندوں کی بہتری کے لئے بہت سے اقدامات کرتا رہتا ہے۔پاکستان لاکھوں افغانوں کی مستقل میزبانی تین دہائیوں سے کر رہا ہے۔
افغانستان کے عوام تو ہمیشہ پاکستان کے بارے میں اچھے جذبات رکھتے ہیں، لیکن افغان حکومت میں شامل بعض سیاست دانوں کا رویہ پاکستان کے ساتھ معاندانہ رہا ہے اور عین ممکن ہے کہ اب وہ بھارت کی محبت سے مغلوب ہو کر اس میں کچھ شدت بھی لائے، لیکن بدلے ہوئے حالات میں پاکستان کی خطے کے ان حالات پر گہری نظر ہے۔ البتہ پاکستان کے اندر اور باہر بعض ممالک اور پریشر گروپ ایسے ہیں جو نہ صرف افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو خراب کرنا چاہتے ہیں، بلکہ ان کی خواہش ہے ایران بھی پاکستان کے خلاف ہو جائے۔ حالانکہ ایرانی قیادت نے بار بار پاکستان کے لئے اچھے جذبات کا اظہار کیا ہے۔
Pakistan and Iran
تاہم ایرانی اور پاکستانی حکومتوں اور قیادتوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے والے بھی متحرک ہیں، پاکستان کو اِس جانب بھی متوجہ اور ہوشیار رہنا ہو گا۔روس نہ صرف خطے کی بڑی طاقت ہے، بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کا پرانا کردار آہستہ آہستہ بحال ہو رہا ہے، جو سوویت یونین کے زمانے میں تھا، روس نے پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز کر دیا ہے۔ اگر امریکہ بدلے ہوئے حالات میں اپنے کیوبا جیسے ہمسائے کے ساتھ پچاس سال بعد تعلقات اَزسرِ نو استوار کر سکتا ہے اور دونوں ملکوں کے شہریوں کے درمیان آمدو رفت کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو سکتا ہے تو ہمارے خطے کے ملکوں میں تعاون کے نئے دور کا آغاز کیوں نہیں ہو سکتا؟ سرتاج عزیز نے ملکوں کے درمیان نئی صف بندیوں کی جو بات کی ہے وہ ایک ایسی اٹل حقیقت ہے، جس سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔
اِس نئی صف بندی میں ملکوں کی پوزیشن بدل سکتی ہے اور بعض ملک تو یوٹرن بھی لیتے نظر آئیں گے۔ پاکستان اپنی سٹرٹیجک اہمیت کو پیشِ نظر رکھ کر اپنی پالیسی مرتب کر رہا ہے نئی پالیسی بناتے وقت اِس بات کا ضرور خیال رکھے گا کہ دیرینہ دوستوں کو خواہ مخواہ ناراض نہ کیا جائے، دہشت گردی کے حوالے سے امریکہ اگر ”ڈو مور” کا مطالبہ کر رہا ہے تو اس پر اِس ضمن میں پوزیشن واضح کی جا سکتی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری داعش اور القاعدہ کی دہشت گردی کے آگے بند باندھنے میں پاکستان کے کردار کے معترف ہیں۔
اِس لئے اْنہیں پاکستان کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں آسانی ہے اور انہیں سمجھایا بھی جا سکتا ہے تاہم امریکہ کو بلاوجہ ناراض کرنے کی ضرورت بھی نہیں، بھارت کے ساتھ امریکہ کی قربت کا یہ مطلب تو نہیں کہ امریکہ اب ہر معاملے میں بھارت کی ہاں میں ہاں ملانے لگے گا، عالمی سٹیج پر پاکستان کا کردار پہلے بھی نمایاں تھا اور اب بھی نمایاں ہی رہے گا۔