افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) طالبان حکومت دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ یہ کہنا ہے افغانستان کے وزیر اعظم ملا محمد حسن آخوند کا۔ انہوں نے بین الاقوامی خیراتی اداروں سے اپیل بھی کی کہ وہ افغانستان کے لیے امداد کی فراہمی جاری رکھیں۔
افغانستان کے موجودہ حکومتی سربراہ نے اپنی تقرری کے تین ماہ بعد پہلی بار اپنے عوام سے خطاب کیا ہے۔ ملا محمد حسن آخوند کی بحیثیت وزیر اعظم یہ پہلی تقریر ہفتے کے روز افغانستان کے سرکاری ٹیلی وژن پر نشر ہوئی۔ انہوں نے اپنے عوام سے ایک ایسے وقت میں خطاب کیا ہے جب ان کا ملک انتہائی شدید اقتصادی بحران کا شکار ہے اور عوام انسانی المیے سے دوچار ہیں۔ افغان باشندے ملک میں افراط زر اورغذا کی شدید قلت کا شکار ہیں اور معاشرے کے بنیادی ڈھانچے کی خستہ حالی اور طالبان کی انتہا پسندی کے خوف تلے دبے چلے جا رہے ہیں۔ اس تناظر میں حسن آخوند نے اپنی قوم سے خطاب آئندہ ہفتے دوحہ میں امریکا اور طالبان کے مابین طے مذاکرات سے پہلے کیا۔
ملا محمد حسن آخوند نے اپنے خطاب میں افغان قوم سے مطالبہ کیا کہ وہ طالبان حکومت کے شکر گزار بنیں۔ انہوں نے کہا کہ طالبان نے اپنے وہ وعدے پورے کیے ہیں جن میں انہوں نے یہ عزم کیا تھا کہ جب تک ملک میں اسلامی حکومت قائم نہیں ہو جاتی اور افغانستان میں استحکام نہیں آتا تب تک وہ غیر ملکی افواج کےخلاف اپنی جنگ جاری رکھیں گے۔
طالبان نے رواں سال اگست کے وسط میں افغان دارالحکومت کابل پر قبضہ کر لیا تھا اور ملک سے نیٹو افواج کے انخلا کے بعد اقتدار سنبھال لیا تھا۔ اُس کے بعد سے عالمی سطح پر طالبان حکومت کی پالیسیوں اور حکمت عملی ایک مشکل سوال بنی ہوئی ہے۔
طالبان اپنی داخلہ پالیسیوں میں ایک بار پھر انسانی حقوق، خاص طور سے خواتین کے حقوق کو جس طرح نظر انداز کرتے دکھائی دے رہے ہیں وہ اقوام عالم کے لیے گہری تشویش کا باعث ہیں۔
کابل میں اقتدار پر براجمان ، انتہا پسند طالبان تاہم یہ محسوس کر رہے ہیں کہ عالمی برادری کا اعتماد بحال کرنے اور اُس سے اقتصادی یا مالیاتی امداد حاصل کرنے کے لیے انہیں کچھ کرنا ہوگا۔ اس احساس کی جھلک ملا محمد حسن آخوند کے خطاب میں نظر آئی۔ طالبان کےشریک بانی اور افغانستان کے موجودہ وزیر اعظم نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ان کی حکومت دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔
30 منٹ پر محیط اپنی تقریر میں ان کا کہنا تھا، ”ہم تمام ممالک کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے اور ہم ان کے ساتھ اچھے اقتصادی تعلقات کے خواہشمند ہیں۔‘‘ واضح رہے کہ ملا محمد حسن آخوند نے یہ خطاب سوشل میڈیا پر طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے اب تک کی خاموشی پر ہونے والی تنقید کے بیچ دیا۔ عوامی رابطوں کی ویب سائٹس اور دیگر ذرائع ابلاغ میں کابل میں طالبان کی حکومت پر اس بارے میں کافی لے دے ہو رہی ہے کہ جنگ سے تباہ حال ملک کا اقتدار سنبھالنے والے عسکریت پسند طالبان دیدہ و دانستہ عوام کی زبوں حالی کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں طالبان کی خاموشی کو کڑی تنقید کی نشانہ بنایا جا رہا ہے جب افغان قوم شدید نوعیت کے چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔
ملا محمد حسن آخوند نے اپنے خطاب میں مزید کہا، ”ہم اپنے گہرے مسائل میں ڈوبے ہوئے ہیں مگر ہم خداوند کی مدد سے اپنے لوگوں کے مصائب اور ان کی مشکلات سے انہیں نکالنے کی صلاحیت و طاقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
امریکا میں نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد امریکی قیادت والی اتحادی فورسز نے طالبان کی اُس وقت برسر اقتدار حکومت کا تختہ الٹا تھا۔ امریکی حملوں کے پیچھے مبینہ طور پر القاعدہ دہشت گردوں کا ہاتھ تھا اور اس دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن تب افغانستان میں رہتے تھے۔ ملا محمد حسن آخوند ایک کہنہ مشق سیاسی شخصیت ہیں جو طالبان تحریک کے بانی اور اُس کے پہلے سپریم لیڈر ملا عمر کے قریبی ساتھی اور سیاسی مشیر رہ چُکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ان کی عمر 60 برس کے لگ بھگ ہے۔ انہوں نے 1996ء تا 2001ء طالبان کے سابقہ حکومتی دور میں وزیر خارجہ اور نائب وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دی تھیں۔ انہیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں کی زد میں آنے والی شخصیات کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ اُن تمام افراد کی فہرست جو طالبان کی کاروائیوں اور سرگرمیوں میں ملوث رہے تھے۔
ملا محمد حسن آخوند کی حکومت کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ خاص طور سے ملک کی خستہ حال معیشت کی بحالی، بین الاقوامی امداد کا حصول جو سابقہ امریکی حمایت یافتہ حکومتوں کے دور میں قومی بجٹ کا 75 فیصد بنتا تھا۔
افغانستان کی مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ اور طالبان کے قبضے کے بعد ملک کے بینک کاری کے نظام کی تباہی، سب سے بڑھ کر سقوط کابل کے بعد امریکا کی طرف سے کابل کے لیے ریزرو میں رکھے ہوئے قریب 10 بلین ڈالر کے اثاثے منجمد کرنے کے فیصلے نے طالبان حکومت کو بڑے امتحان میں ڈال دیا ہے۔
اس وقت عالمی مالیاتی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے افغانستان کے لیے فنڈنگ تک طالبان کی رسائی روکنے کا عمل موجودہ طالبان حکومت کو شدید دباؤ اور مشکلات میں ڈالنے کا سبب بنا ہے۔