تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم یہ ٹھیک ہے کہ ہم دنیا کے پسماندہ ممالک میں سے ایک ہیں مگر اِس کے با وجود بھی ہمیں یہ اعزاز ضرور حا صل ہے کہ ہم ایک ایٹمی مُلک بھی ہیں اَب یہ اور بات ہے کہ دنیا اور ہما رے پڑوسی بھارت جیسے دیگر اِدھر اُدھر کے ممالک ہما رے ایٹمی پروگرا موں سے خا ئف اور خوفزدہ رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ ہمیشہ ہمارے متعلق نہ صرف خطے بلکہ دنیا کے دیگر مما لک میں بھی منفی پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں جن کی اِسی حرکتوں کی وجہ سے پاکستان کو عالمی سطح پر معاشی اور اقتصادی اور دوسرے حوالوں سے انگنت نقصانا ت کا سا منا کرنا پڑرہا ہے مگر اِس کے باوجود بھی ہم جیسے تیسے نہ صرف خطے کے ممالک بلکہ بین الاقوامی طور پربھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں اور اپنی کوششوں سے خطے اور دنیا کے مما لک کے ساتھ چل رہے ہیں۔
اگر چہ اِس سے بھی انکار نہیں ہے کہ آج پاکستان اغیار( بھارت و امریکا ) کی وجہ سے اندورنی اور بیرونی طور پر مشکل ترین دور سے گزررہاہے ،ایسے میں موجودہ حالا ت تقاضہ تو یہی کررہے ہیں کہ اِن نا زک لمحات میں پوری پاکستا نی قوم متحد و منظم ہو کر بھارت اور امریکا جیسے اپنے دوست نما دُشمنوں کا مقا بلہ کرے اور اِن کی تمام سازشوں اور گٹھ جوڑکو خاک میں ملا دے مگر بڑے افسوس کے ساتھ یہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ ہما رے حکمرا ن او ر سیاستدان اپنی ذاتی اور سیاسی کدورتوں کی وجہ سے ایک پیچ پر نہیں ہیں اور بھا رت و امریکا اور اکثر و بیشتر افغانستان کی کڑوی زبا نوں کو سمجھنے سے بھی عاری بیزار نظر آتے ہیں حا لانکہ یہ جا نتے ہوئے بھی کہ بھارت ، امریکا اور افغانستان کا گٹھ جوڑخطے میںپاکستان چین اقتصادی راہداری کو نقصان پہنچا نے کے لئے ہے مگر پھر بھی ہما رے حکمرانوں اور سیاستدانوں کا جھکاو ¿ بھارت ، امریکا اور افغانستان کی ہی جا نب ہے ۔
جبکہ اَب حکمرا نوں اورسیاستدا نوں کو سنجیدہ ہونا پڑے گا کیو نکہ اِن کی آپس کی کھینچا تا نی اور لڑا ئی جھگڑے سے پڑوسی بھارت جیسا دُشمن مُلک فا ئدہ اُٹھا رہاہے اور اَب جو امریکا کی گود میں بیٹھ کر اُسے مزے بھی دے رہاہے اور اپنا اُلو بھی سیدھا کررہاہے اُس کی اِسی امریکی چا پلوسی اور ہمارے حکمرا نوں او ر سیاستدانوں کی آپس کی چپقلش کی وجہ سے ہمارا مُلک پاکستان معاشی اور اقتصادی میدان میں بہت پیچھے چلا گیا ہے، قرضو ں کی شرح آسمان سے بھی بلند ہونے کو ہے،مُلک اور قوم قرضوں کے بوجھ تلے دبتے ہی چلے جا رہے ہیں مگر ہما رے حکمران اور سیا ستدان ہیں کہ اِنہیں اپنی لڑا ئی جھگڑوں سے ہی فرصت نہیں ہے، کو ئی سڑکوں پر نکل کر پا نا ما سے اقا مہ تک کا رونا رورہا ہے تو کو ئی ما ضی اور مستقبل کے الیکشن دھا ندلی پر دھول چا ٹ رہا ہے تو کو ئی ایک طرف شہرِ قا ئد کراچی کو گھنڈر میں تبدیل کرکے صحرا ئے تھرپارٹ 2 بنا کرتو دوسری طرف( جیسے حلوا ئی جی کی دُکان پر دادا جی کی فاتحہ) کچھ نہ کرکے بھی وفاق میں اپنی حکومت بنا نے کے خوا بوں کی دنیا میںگم ہے اور اپنی چر ب زبا نی سے زبردستی کا اپنا سیاسی قد اُونچا کئے جا رہا ہے ،الغرض یہ کہ سب ہی اقتدار کی کُرسی کے حصول کے لئے آئین اور قا نون اور اداروں کو اپنا غلام بنا کر اپنی ہر نا جا ئز خواہشات کو جا ئز بنا نے کے لئے سارے غلط اور غیرآئینی اور غیرقا نونی حربے استعمال کررہے ہیں لو ٹ مار کی اِس گھڑی میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی بھی مُلک اور قوم کی ترقی اور خوش حالی سے مخلص دِکھا ئی نہیں دے رہاہے، آج جمہوریت کے پجاری جمہوری اداروں کا اپنے ہی ہاتھوں شیرازہ بکھیرنے کے درر پر ہیں۔
تاہم یہاں یہ امر قا بل تحسین اور لا ئق احترام ضرور رہا کہ پچھلے دِنوں کراچی میں مُلکی معیشت اورسلامتی کے مو ضوع پر پاک فوج کے تعلقاتِ عا مہ (آئی ایس پی آر) کے زیراہتمام ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس کے مستقبل قریب میں مُلکی معیشت اور سلامتی کے لئے بہتر نتا ئج اخذ ہوسکیں گے اِس سیمینار کی سب سے خاص اور بات جو رہی وہ یہ تھی کہ اِس سیمینار سے خطا ب کرتے ہوئے ہمارے سپہ سالارِ اعظم/آرمی چیف جنرل قمر جا وید باجوہ نے دو ٹوک الفاظ میں مُلک کو ما ضی و حال اور مستقبل کے خطرات اور چیلنجز کا ذکرکیااور موجودہ حالات واقعات کے تنا ظر میں مُلکی معیشت اور سلامتی کی اہمیت کو اُجاگر کیا اور اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے اِس عزم و حو صلے کابھی اعادہ کیا کہ ہمیں ہر صورت میں معیشت اور سلامتی کے درمیان قا بل عمل توازن کے تسلسل کو یقینی بنا نا ہے،یقینا ہم اِسی صورت میںاپنا ایک تبانا ک مستقبل حاصل کر سکیں گے،جس میں ہمارے لوگوں کے لئے پا ئیدارامن اور مسرت یقینی ہو گی“ اِس موقع پر کراچی سے تعلق رکھنے والی کاروباری شخصیات کی بڑی تعداد بھی موجود تھی ۔
بیشک ، پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جا وید با جوہ کا جو کام تھا آج اُنہوں نے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دیتے ہوئے ریاست کو چلینچ کرنے والے عنا صر کا سر کچل کر اُن کا قلع قمع کردیا ہے،جس کے لئے ساری پاکستا نی قوم اُن کی مشکور و ممنون ہے،اور اِن کے اِس کہے کو قدر کی نگا ہ سے دیکھتی ہے کہ ” سیکیورٹی بہتر کردی ہے ، اَب اکا نومی معیشت مضبوط بنا ئی جا ئے“ اَب معیشت کو مضبوط بنا نے کی ذ مہ داری جن کی ہے وہ سِول حکمران و سیاستدان اور ادارے ہیں یہ بتا ئیں کہ معیشت مضبوطی کی منصو بہ بندی کس طرح کریں؟ کہ مُلکی معیشت مضبوط اور مستحکم ہو اور اِس میںاستحکام آئے،مگر افسوس ہے کہ آج ہمارے سِول حکمران اور سیاستدان تومُلکی معیشت کو مستحکم اور مضبوط بنا نے کے بجا ئے اگلے ممکنہ طور پر متوقع الیکشن سے قبل اپنی ذاتی اور سیا سی حیثیت کو مستحکم کرنے کے لئے متحرک دِکھا ئی دیتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہما رے سیاسی عناصر نے آر می چیف کے کہے کو سُنی اِن سُنی کرکے ہوا میں اُڑا دیا ہے،حا لا نکہ اِنہیں ایسا نہیں کرنا چا ہیئے تھا مگر یہ بات سمجھ نہیں آرہی ہے کہ حکمرا ن جماعت سے لے کر اپوزیشن کی ساری مُلکی جماعتیں سِوا ئے آپس میں لڑنے جھگڑنے اور دستِ گریبان ہو نے کے کچھ اور کرنا ہی نہیں چا ہتیں ہیں۔
اِس میں شک نہیں ہے کہ ہم تاریخ کے انتہائی نازک ترین دور سے گزررہے ہیں یہ بھی ٹھیک ہے کہ ہم پاکستا نی اور بحیثیت مسلمان دینِ اسلام کی چھتری تلے جمع توضرور ہیں، مگر بڑ ے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہے کہ پھر بھی پتہ نہیں کیو ں؟ ہم بظاہر اچھے اور متحد نظرآنے والے اندر سے با ہم متحدو منظم اور ملی یکجہتی اور یگا نگت کا ویسا نمو نہ نہیں ہیں جیسا کہ ہمیں حقیقی معنوں میں ہونا چا ہئے تھا اور آج جیساکہ ہم سے اپنی بقا ءو سا لمیت کے حوا لوں سے وقت اور حالات تقا ضہ کررہے ہیں ابھی ہمیں بہت کچھ کرنا ہے مگرہم توجھوٹ ، فریب دھوکہ بازی اور اسلامیات ، ایما نیا ت ، دینیات ،اخلاقیات ، سما جیات، سیاسیات،معاشیات ،اقتصادیات اور اقتداریات سے لے کر زندگی کے ہر شعبے میں دونمبری مشہور ہو گئے ہیں ، اگرابھی ہم نے اپنا محا سبہ اور احتسا ب نہ کیا توخدشہ ہے خا کم بد ہن ہم کہیںقصہ پا رینہ نہ بن جا ئیں ،قبل اِس کے کہ ایسا کوئی بُرا لمحہ یا وقت آئے ،ا للہ ہمیں تو بہ کرنے اور خود کو سُدھارنے اور صحیح معنوں میں پکا پاکستا نی اور سّچا مسلمان بننے کی تو فیق عطا فرما ئے(آمین یا رب العالمین)۔(ختم شُد)