اسلام آباد (جیوڈیسک) نومنتخب وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وہ قوم کو مقروض کرنے والے کسی شخص کو نہیں چھوڑیں گے اور ملک کا پیسہ واپس لائیں گے۔
قومی اسمبلی سے منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں ان کا کہنا تھا کہ اپنی قوم سے وعدہ کرتا ہوں جو تبدیلی ہم لائیں گے قوم اسی کے لیے ترس رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ کڑا احتساب ہوگا اور جن لوگوں نے قوم کو مقروض کیا ایک، ایک آدمی کو نہیں چھوڑوں گا۔
عمران خان وعدہ کیا کہ ملک میں وہ تبدیلی لائیں گے جس کے لئے قوم ترس رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ملک کو لوٹنے والے ایک ایک کا احتساب ہوگا اور کسی ڈاکو سے این آر او نہیں ہو گا۔
نومنتخب وزیراعظم نے کہا کہ مجھے کسی ملٹری ڈکٹیٹر نے نہیں پالا، 22سال کی جدوجہد کے بعد یہاں پہنچا ہوں۔
انتخابی مہم کے دوران کیے گئے اپنی وعدے کو دہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو ملک کا پیسہ لوٹ کر باہر لے گئے ہیں وہ پیسہ واپس لاؤں گا۔
عمران خان نے کہا کہ چھ ہزار ارب قرضے کو اٹھائیس ارب روپے تک کر دیا گیا، یہ قرضہ کیسے چڑھا اس کا حساب کریں گے، جو پیسہ عوام کو سہولیات کے لئے تھا وہ لوگوں کی جیبوں میں گیا، اس پیسے کی واپسی کے لئے ایوان میں بحث کریں گے۔
چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ نوجوانوں کی وجہ سے آج یہاں کھڑا ہوں، ان کی حمایت کے بغیر یہاں نہیں پہنچ سکتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کریں گے تاکہ باہر نہ جانا پڑے۔
عمران خان نے کہا کہ آپ انتخابات کے حوالے سے جس قسم کی تفتیش کرانا چاہتے ہیں ہم تعاون کریں گے اور یہ تعاون ہم اس لیے کریں گے کیوں کہ ہمیں پتا ہے ہم نے دھاندلی نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ 2013 میں چار حلقوں میں بے ضابطگیاں نکلیں، عدالتی کمیشن میں گئے، ڈھائی کروڑ ووٹ مِسنگ تھے کیوں کارروائی نہیں کی، کیوں ذمہ داروں کا احتساب نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ آپ الیکشن کمیشن یا عدالت کے سامنے جائیں ہم نہیں روکیں گے، آپ کو تو پتہ ہی نہیں کہ حلقوں میں ہوا کیا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ پنجاب کے 47 حلقے ایسے ہیں جہاں 3ہزار ووٹوں سے ہارے، قومی اسمبلی کے کئی حلقے ایسے ہیں جہاں 4 ہزار ووٹوں سے ہارے، جو مدد کر رہے تھے وہ کیوں نہ جتوا سکے۔
انہوں نے کہا کہ آج تک نہ بلیک میل ہوا نہ کوئی کر سکا نہ کوئی کر سکے گا، کوئی این آر او نہیں ملے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر دھرنا دینا ہے تو دیں ہم کنٹینر دیں گے، کھانا دیں بھی گے لیکن کسی قسم کے بلیک میل سے نہیں ڈریں گے۔
عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ میں نے چار ماہ کنٹینر میں گزارے، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان ایک ماہ گزار کر دکھادیں، ہم ان کی بات مان لیں گے۔
شہباز شریف کا قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ کیسا الیکشن ہے کہ ہم 2018 کے الیکشن کو یوم آزادی کے جشن میں شریک نہ کر سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کیسا الیکشن تھا جو ای سی پی کی ذمہ داری تھی مگر وہ مکمل طور پر ناکام رہا، چترال سے لیکر کراچی تک رات 11 بج کر 47 منٹ پر آر ٹی ایس مشینیں زبردستی بند کر دی گئیں۔
ان کا کہنا تھا یہ کیسے الیکشن تھے کہ پورے پاکستان میں ہر حلقے سے پولنگ ایجنٹس کو نکال کر گنتی کی گئی، بہت سے ایسے حلقے تھے جہاں پر مسترد ووٹوں کی تعداد جیت سے زیادہ تھی، فارم 45 کی جگہ پولنگ ایجنٹس کو کچی پرچیاں تھما دی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ کیسا الیکشن تھا کہ تین دن تک الیکشن کے نتائج نہیں آئے، جہاں میڈیا کو پولنگ اسٹیشنز میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی، دیہاتوں کے نتائج پہلے آئے اور شہروں کے نتائج 48 گھنٹے بعد بھی نہ آئے، ووٹنگ کی رفتار کو دانستہ طور پر سست کیا گیا۔
مسلم لیگ ن کے صدر نے کہا کہ پورے پاکستان میں تاریخ کے سب سے زیادہ 16 لاکھ ووٹ مسترد کیے گئے، ایک سیاسی جماعت کو نشانہ بنا کر 16800 سیاسی ورکروں کے خلاف پرچے کاٹے گئے، سیاسی لیڈروں کے خلاف دہشت گردی کی ایف آئی آر کاٹی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ کیسا الیکشن تھا کہ گلی اور محلوں کے نالوں سے بیلٹ پیپرز برآمد ہو رہے ہیں، اس لیے پوری قوم نے اس الیکشن کو مسترد کر دیا ہے، اس الیکشن میں ہما گیر دھاندلی ہوئی کہ حزب اختلاف کے ساتھ حزب اقتدار کی جماعتیں بھی دہائی دے رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلا الیکشن ہے جہاں پر جیتنے والا بھی رو رہا ہے اور ہارنے والا بھی رو رہا ہے، 2018 کا الیکشن تاریخ میں بدترین بددیانتی میں شمار ہو گا۔
شہباز شریف نے کہا کہ آج ہم حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیشن بنایا جائے اور تیسرے فریق سے اس کا آزادانہ آڈٹ کرایا جائے، اور پھر ذمہ داروں کو پتہ چلا کر انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کے اندر ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں تو دھاندلی کا پتہ لگانا ہو گا، 30 دن کے اندر یہ کمیشن اس ایوان اور عوام کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرے، یہ کمیشن رپوٹ کے ساتھ اس دھاندلی کی روشنی میں سفارشات پیش کرے اور الیکشن کے قانون 2017 میں جو بھی ترامیم ہونی چاہئیں تاکہ قیامت تک دوبارہ ووٹ کی چوری نہ ہو سکے۔
ان کا اسپیکر قومی اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم بطور احتجاج ایوان میں پر آئے ہیں اور یہ آپ کی آئینی، قومی اور پارلیمانی ذمہ داری ہے کہ آپ کو ہمارے حقوق کا تحفظ کرنا ہوگا، اگر آپ نے یہ راستہ نہ اپنایا تو حزب اقتدار کی جماعتیں اپنے حقوق کے لیے سڑکوں کا راستہ اپنائیں گی۔
صدر مسلم لیگ ن نے اسپیکر اسد قیصر کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ فی الفور الیکشن میں دھاندلی کی تحقیقات کا کمیشن بنا کر عوام اور اللہ کے سامنے سرخرو ہو جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی کو غلط فہمی نہ ہو کہ ہم ان سوالوں کے جواب لینے تک پیچھا چھوڑیں گے، اگر انتخابات میں دھاندلی کا جواب نہ ملا تو تحریک چلائیں گے۔
خان صاحب، آپ کو بھاگنے نہیں دیہں گے اور ووٹ کی چوری کا حساب لیں گے، شہباز شریف شہباز شریف نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خان صاحب! آپ نے ہمارے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ کہا تھا کہ اگر دھاندلی ثابت ہوئی تو نواز شریف کی حکومت مستعفی ہو گی، کیا آپ آج اپنے ان الفاظ کو خود پر لاگو کریں گے، ہم آپ کو بھاگنے نہیں دیہں گے اور ووٹ کی چوری کا حساب لیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ خان صاحب، یہ بھی بتاتا چلوں کہ گو کہ ہم یہاں پر 2018 کے دھاندلی شدہ الیکشن کا تحفظ کرنے نہیں بلکہ جمہوری نظام کو آگے بڑھانے کے لیے آئے ہیں۔
انہوں نے اعلان کیا کہ جب ہم اپنا حق مانگیں گے تو اس ایوان پر لعنت نہیں بھیجیں گے، پارلیمنٹ پر حملہ نہیں کریں گے، سپریم کورٹ کے ججز کو راستہ بدلنے پر مجبور نہیں کریں گے، عوام کو ہنڈی کے ذریعے پیسہ بجھوانے کا مشورہ نہیں دیں گے، سوئی گیس اور بجلی کے بلوں کو آگ نہیں لگائیں گے اور اپنے غیر ملکی مہمانوں اور سربراہان مملکت کو دھرنوں کے ذریعے دورے موخر کرنے پر مجبور نہیں کریں گے۔
صدر مسلم لیگ ن نے مزید کہا کہ ہم بے روز گاری اور غربت کے خاتمے کے لیے اربوں روپے کے معاہدے موخر نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا خان صاحب آپ تو کرپشن کرپشن کی بات کرتے تھے لیکن جج نے اپنے فیصلے کے صفح نمبر 171 پر لکھا ہے کہ نواز شریف کے خلاف کرپشن نہیں دیکھ سکا۔
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کا قصور یہ ہےکہ اس نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا، سی پیک کا تحفہ دیا، ملک سے اندھیروں کا خاتمہ کیا، 11 ہزار میگاواٹ بجلی کے منصوبے لگائے۔
نواز شریف کے دور میں امن قائم ہوا، دہشت گردی کا خاتمہ ہوا، نواز شریف کی حکومت میں شرح نمو سب سے زیادہ 5.8 فیصد تک پہنچا اور اسٹاک ایکسچینج 19 ہزار سے 50 ہزار تک پہنچا۔
صدر مسلم لیگ ن نے کہا کہ آج اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ دھاندلی کے کرداروں کو سامنے لانے تک اس ہاؤس کی کارروائی نہیں چلنے دیں گے۔