تحریر : محمد اشفاق راجا وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خاں نے کہا ہے کہ تحریک انصاف نے 2 نومبر کو ”لاک ڈاون” کے ذریعے پاک سیکرٹیریٹ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے جو ریاست کیخلاف سنگین جرم ہے اس لئے اس پر کسی صورت عملدرآمد نہیں ہونے دیا جائیگا۔ کیونکہ لاک ڈاون سے حکومت کی بدنامی بعد میں مگر ملک کی پہلے ہوگی۔ گزشتہ روز پنجاب ہاوس اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لاک ڈاون کا اعلان کرنیوالے سیکرٹیریٹ کے اندر جانا چاہتے ہیں تاکہ وہ کسی کو گھسنے نہ دیں اور اس طرح حکومت کام کرنے کے قابل نہ رہے’ اس بارے میں ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں۔ انہوں نے باور کرایا کہ یہ حکومت نہیں بلکہ ریاست کیخلاف جرم ہے جس پر خاموش نہیں رہا جاسکتا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ عمران خان خیبر پی کے حکومت کو وفاق کیخلاف جنگ کیلئے استعمال کررہے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت کو لاک ڈاون کرنا ایٹمی ریاست کے وقار اور ساکھ کو مجروح کرنے کے مترادف ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دھرنے کے حوالے سے کسی قسم کی گرفتاریاں نہیں ہونگی اور اسلام آباد لائے گئے آتشیں اسلحہ اور آنسو گیس کے شیل پھینکنے کی برآمد کی گئی گن عدالت میں پیش کی جائیگی۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ خیبر پی کے پرویز خٹک نے کہا کہ ہمیں بنی گالہ جانے سے کوئی نہیں روک سکتا’ ہم آج بنی گالہ سے عمران خان کو نکال کر آزاد کرا دینگے’ اگر ہمارا راستہ روکا گیا تو ہم باغی بن جائینگے۔ گزشتہ روز مانکی شریف میں پبلک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ملک کرپشن اور لوٹ مار کیلئے نہیں بنا’ آج وفاقی حکومت نے کرپشن سے ملک کھوکھلا کردیا ہے۔ انکے بقول عمران خاں واحد لیڈر ہیں جو لوٹ مار اور کرپشن کیخلاف نکلے ہیں اور پوری قوم انکے ساتھ ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ہمیں اسلام آباد میں روکا گیا تو خیبر پی کے میں کوئی جلسہ نہیں کرسکے گا۔ انہوں نے وفاقی وزیر داخلہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وہ پولیس کا سہارا نہ لیں اور ہمت ہے تو خود سامنے آئیں۔ انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کو بھی چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم آرہے ہیں’ تم روک کر دکھا؟۔
Freedom of Expression
بنیادی انسانی حقوق سے متعلق آئین کی دفعات کے تحت بلاشبہ کسی بھی شہری’ تنظیم یا جماعت کو اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ ساتھ اپنے حقوق اور مطالبات منوانے کیلئے سڑکوں پر آنے کا بھی حق حاصل ہے۔ جرنیلی آمریتوں میں تو آئین معلق کرکے یہ بنیادی انسانی حقوق سلب کئے جاتے رہے ہیں مگر جمہوری ادوار میں بہرصورت بنیادی انسانی حقوق سے متعلق آئینی دفعات کی پاسداری کی جاتی ہے اور جمہوریت کے حسن سے تشبیہ پانے والی اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریکوں کو بھی جمہوری ادوار میں جمہوریت کو فروغ دینے کے جذبے کے تحت ہی قبول کیا جاتا رہا ہے۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی دو سال قبل کی دھرنا تحریک کو بھی پارلیمنٹ کی مشترکہ حکمت عملی کے تحت تین ماہ سے بھی زائد عرصہ تک قبول اور برداشت کئے رکھا گیا۔ اگرچہ اس تحریک کے بھی ملکی ساکھ اور معیشت پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوئے اور اس دھرنے کے باعث صدر عوامی جمہوریہ چین کا طے شدہ دورہ¿ پاکستان ملتوی ہونے کے باعث سفارتی سطح پر ملک کی بدنامی ہوئی۔ اسکے باوجود حکومت نے جمہوریت کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچنے دینے کی خاطر دھرنے والوں کے ساتھ کسی قسم کا سخت رویہ اختیار نہ کیا حتیٰ کہ تحریک انصاف کے قومی اور پنجاب اسمبلی سے آئینی تقاضوں کے تحت دیئے گئے استعفے بھی منظور نہ کئے نتیجتاً سپیکر قومی اسمبلی اور وفاقی حکومت پر اس معاملہ میں متعلقہ آئینی شق سے روگردانی کا الزام بھی لگا جو حکومت آج بھی سپریم کورٹ میں بھگت رہی ہے۔
اگر آئین نے شہری آزادیوں کا حق دیا ہوا ہے جسے بالعموم اپوزیشن کی جانب سے اپنے مقاصد کے تحت استعمال کیا جاتا ہے تو آئین نے شہری آزادیوں کے حق کے استعمال کو حدود و قیود میں بھی رکھا ہوا ہے اور کسی کی جانب سے اس آئینی حق کو ملک کی سلامتی اور قومی مفادات کیخلاف استعمال کیا جائے یا اسکی کوشش کی جائے تو آئین اور مروجہ قوانین کے ضوابط ملکی سلامتی اور قومی مفادات کیخلاف اقدامات پر متعلقہ شخص’ تنظیم یا جماعت کیخلاف سخت کارروائی کی بھی ریاست کو اجازت دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے عمران خان نے سسٹم کی تبدیلی اور نئے پاکستان کا نعرہ لگا کر خود کو ملکی آئین اور قانون سے بھی بالاتر سمجھ لیا اور حکومتی شخصیات اور آئینی اداروں تک کو تضحیک کا نشانہ بنانا اپنا حق بنالیا۔ انہیں قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی حکومتی بے ضابطگی یا اختیارات کے ناجائز استعمال کے ٹھوس ثبوت ملنے پر دادرسی کیلئے عدلیہ اور پارلیمنٹ سمیت ہر مجاز فورم پر جا کر ”نقارہ¿ حق” بجانے کا پورا حق حاصل ہے مگر وہ تو ہر معاملے میں اپنے حق میں اور من مرضی کافیصلہ لینے کا ذہن بنا چکے ہیں جس کیلئے انہوں نے گالی گلوچ والے لہجے میں حکومتی ارکان’ ماتحت اور اعلیٰ عدلیہ کے فاضل ججوں’ الیکشن کمیشن کے عہدیداروں اور اپنی سوچ کے مخالف سیاست دانوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی روش اختیار کرکے انہیں دفاعی پوزیشن پر لانے کی جارحانہ سیاست کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
Imran Khan
یہ صورتحال قومی مینڈیٹ حاصل کرکے اقتدار میں آنیوالی کسی جماعت اور آئینی ریاستی اداروں کیلئے بھلا کب تک قابل قبول ہو سکتی ہے۔ چنانچہ عمران خان نے پانامہ لیکس کے ایشو پر حکومت کو چیلنج کرتے ہوئے اسے چلنے نہ دینے’ اسلام آباد بند کرنے اور وزیراعظم کو ہرصورت اقتدار سے باہر نکلوانے کی سیاست شروع کی جس میں اپنے ٹی او آرز پر اصرار کرتے ہوئے عدلیہ کو بھی رگیدا جانے لگا تو اسکے ردعمل میں حکمران پارٹی نے بھی سخت لائن آف ایکشن وضع کرلی۔ بالخصوص اس صورتحال میں کہ حکومت گرانے کی جارحانہ سوچ کو مقتدر حلقوں کی آشیرباد حاصل ہونے کا تاثر بھی دیا جارہا ہو تو حکومت کے پاس آئین و قانون کی عملداری قائم کرنے اور ریاستی اتھارٹی تسلیم کرانے کیلئے ریاستی انتظامی مشینری کے ذریعے قانون کو حرکت میں لانے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہتا۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ عمران خان نے پانامہ لیکس کیخلاف سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا اور عدالت عظمیٰ نے انکی درخواست سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے وزیراعظم سمیت تمام فریقین کو نوٹس بھی جاری کردیئے مگر عمران خان نے اپنی ہی درخواست پر عدالتی دادرسی کا انتظار کئے بغیر 2نومبر کو ہرصورت دھرنا دینے اور میاں نوازشریف کیلئے حکومت کرنا مشکل بنا دینے کے اعلانات شروع کر دیئے جس کیلئے انہوں نے بالخصوص صوبہ خیبر پی کے کو فوکس کیا جہاں انکی پارٹی کی حکومت ہے۔ اس حوالے سے وزیراعلیٰ خیبر پی کے پرویز خٹک نے بھی اپنے منصب کے آئینی تقاضوں اور ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر وفاقی حکومت کو چیلنج کرنا شروع کر دیا اور گزشتہ روز انہوں نے اسلام آباد پر چڑھائی کرنے اور وفاقی حکومت کی جانب سے روکے جانے کی صورت میں وفاقی حکومت سے بغاوت کرنے کا اعلان کیا تو یہ اپنی صوبائی انتظامی مشینری کو وفاقی انتظامی مشینری کے مدمقابل لانے کا واضح عندیہ تھا جسے روکنے کی حکمت عملی طے نہ کی جاتی تو اس سے ملک میں خانہ جنگی کی فضا مستحکم ہوتی جبکہ یہ صورتحال وفاق کی بنیادیں کمزور کرنے کے مترادف ہوتی۔
بے شک وزیراعلیٰ خیبر پی کے کا وفاق کی اپوزیشن جماعت سے تعلق ہے مگر وزیراعلیٰ ہونے کے ناطے وفاق کو مضبوط کرنا انکی آئینی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اگر وہ اپنی یہ آئینی ذمہ داری ادا کرنے کے بجائے وفاق کو کمزور کرنے کے درپے ہوجاتے ہیں تو وہ ملک اور آئین سے غداری کے مستوجب سزا ٹھہریں گے جبکہ وفاق کے پاس انکے وفاق مخالف ثبوت موجود ہونے کی بنیاد پر آئین کے تحت انکی حکومت ختم کرکے صوبے میں گورنر راج نافذ کرنے اور ان پر آئین سے غداری کا مقدمہ چلانے کا آپشن موجود ہے جسے انکی جانب سے وفاق پر چڑھائی کی صورت میں بروئے کار لانے کا وفاقی حکومت کی جانب سے عندیہ بھی دیا جارہا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ کا یہ اعلان اسی سلسلہ کی کڑی ہے کہ اسلام آباد کو ”لاک ڈا?ن” کرنے کے کسی منصوبہ میں عملدرآمد نہیں ہونے دیا جائیگا۔ ملک میں سیاست بہرصورت جمہوریت کے فروغ کی اور ملکی و قومی مفادات کے تحفظ کی ہونی چاہیے جس کیلئے حکومت اور اپوزیشن سب پر مساوی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ملک کی سلامتی کو درپیش موجودہ بیرونی چیلنجوں کے پیش نظر دشمن کو ملک کے اندرونی طور پر کمزور ہونے کا تاثر دینا بہرصورت ملک کی کوئی خدمت نہیں ہے۔