تحریر: چودھری عبدالقیوم الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سیاسی جماعتوں کی نئی فہرست جاری کی ہے جس میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا نام مسلم لیگ ن کی صدارت سے نکال دیا گیا ہے ۔الیکشن کمیشن نے یہ اقدام سپریم کورٹ کیطرف سے نواز شریف کو وزیراعظم کے عہدے سے نااہل کرنے کے بعد کیا ہے جب کہ مسلم لیگ ن کی طرف سے سردار یعقوب ناصر کو قائم مقام صدر نامزد کردیاگیا ہے اسی اثناء میں نیب نے بھی نوازشریف اور ان کی فیملی کیخلاف کرپشن کے متعدد ریفرنسز پر کاروائی کا آغاز کردیا ہے جس سے مسلم لیگ ن کی مشکلات بڑھتی نظر آ رہی ہیں اس صورتحال کے اثرات لازمی طور پر ملک کی سیاست پر مرتب ہونگے۔
جبکہ آئندہ سال عام انتحابات بھی متوقع ہیںدیکھنا ہے یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اس صورتحال سے باہر نکل کر اپنی سیاسی پوزیشن بحال رکھنے میں کامیاب ہو پائے گی یا پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اس پارٹی خاص طور پر شریف خاندان کی سیاسی زندگی کے خاتمہ کا سبب ہوگا۔مسلم لیگ ن پاکستان کی خالق جماعت پاکستان مسلم لیگ کی تقسیم د ر تقسیم کے بعد وجود میں آئی تھی اس کے روح رواں اور سیاہ سفید کے مالک نوازشریف تھے جن کی سیاست کا آغاز جنرل ضیاء مرحوم کے دور میں ہوا تھا جب نوازشریف پہلی بار 1983ء میں پنجاب کے گورنر جنرل جیلانی کی کابینہ میں صوبائی وزیرخزانہ بنے تھے بعدازاں 1985ء کے غیرجماعتی الیکشن میں محمدخان جونیجو مرحوم ملک کے وزیراعظم بنے تونوازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ بن گئے اس کے بعد انھیں تین بار وزیراعظم بننے کا موقع ملالیکن یہ ایک بار بھی بطور وزیراعظم اپنے عہدے کی مدت نہ کرسکے ان کے اقتدار کا تقریبا ابھی ایک سال باقی تھا کہ 28 جولائی2017کو سپریم کورٹ نے پانامہ کرپشن کیس میں ناہل کردیااب میاں نواز شریف اور ان کا خاندان اپنی سیاسی بقاء کی جنگ لڑرہا ہے۔
اس کے منفی اثرات ان کی جماعت مسلم لیگ ن کی سیاست پر بھی اثرانداز ہورہے ہیںاور جبکہ اس صورت حال سے ملک کی سیاست بھی ایک نیا رُخ اختیار کرے گی اس تبدیل ہونے والے نئے سیاسی منظرنامے میں کئی تبدیلیاں آئیں گی بحرحال اگلے چند مہینوں نہیں بلکہ چند ہفتوں میں آئندہ کا سیاسی نقشہ واضح ہونا شروع ہو جائے گا۔
ایک چیز طے ہے کہ اگر سپریم کورٹ کا کرپشن کے خلاف یہ اقدام آگے کی بڑھتا ہے تو لازمی طور پر ایک ن نئے پاکستان کی ابتدا ہوگی ایک تو نہ صرف کرپشن کے خلاف بڑے اور نئے کیسز کھلیں گے بلکہ اوپرکی سطح پرکرپشن کی حوصلہ شکنی ہوگی جس کے نتیجے میں لازمی طور پر ملک بہتری اور آگے کی طرف گامزن ہوگا ۔لیکن ابھی اس بارے میں تھوڑا انتظار کرنااور دیکھنا پڑے گا کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور انکی فیملی کیخلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے کیونکہ ابھی اس فیصلے پر عملدرآمد میں کئی مرحلے باقی ہیں بلکہ اس کی راہ میں کئی طاقتیں اور ادارے حائل ہیں ۔شریف فیملی جو کئی دہائیوں تک اقتدار میں رہی ہے۔
اب بھی انھیں اقتدار کے ایوانوں اور طاقت کے مراکز تک باآسانی رسائی حاصل ہے ۔یقینی طور پر عدلیہ اور ملک کے اداروں کی کوشش ہوگی کہ ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں نہ صرف سپریم کورٹ کے فیصلوں پر پوری طرح عملدرآمد ہوبلکہ کرپشن کے خلاف کاروائی ہو ا ور احتساب کا عمل آگے بڑھے۔جس کے لیے عوام کی اکثریت سپریم کورٹ اور اداروں کیساتھ ہے کیونکہ عوام کو اس ملک کا مفاد عزیز ہے اور ملک کا وسیع تر مفاد اسی میں ہے کہ یہاں قانون اور آئین کی حکمرانی ہو ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو۔ تاکہ پاکستان میں ترقی اور خوشحالی کا آغاز ہوسکے۔