تحریر : اقبال زرقاش دور حاضر ایک مادی دور ہے یہاں ہر شے مادیت کے سانچے میں ڈھل چکی ہے دولت کی ہوس نے انسان کو بے حس کر کے رکھ دیا ہے مادیت کی دوڑمیں اجتماعی معاملات پر خاموشی ہمارے معاشرے کا وطیرہ بنتی جا رہی ہے۔ قومی و ملکی مسائل سے لے کر سماجی روابط اور معاشرتی رویوں تک کوئی گوشہ ایسانہیں ہے جس پر ذاتی مفادات، ترجیحات اور شخصی پسندو ناپسند کی بجائے قومی و سماجی منفعت کو مقدم سمجھا جاتاہو آج انسانیت تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہی ہے موت ہر طرف رقص کر رہی ہے۔
صحرا سے اُٹھنے والی ہوائیں جو کبھی ُسریلی بانسری کے گیت سناتی تھیںآج چیخ و پکار کی صدائیں بلند کرتے ہو ئے پورے پاکستان کے مسیحا وںکو پکار رہی ہیں کوئی اہل دل ہے جو صحرا کے معصوم پھولوں کو موت کی بے رحم وادیوں سے باہر لے آئے ؟ہر طرف سناٹا ہی سناٹا چھایا ہوا ہے معصوم بچوں کی اُکھڑی ہوئی سانسیں آج ہمارے حکمرانوں کو صدا دے رہی ہیںکوئی ہے جو ان کو نئی زندگی بخش دے ؟کوئی مسیحا ہے جو ان کی نبض پرہاتھ رکھ لے؟مگر ہر طرف مردہ ضمیر انسانوں کا جمِ غفیر ہے کہیں سے کوئی شخص ان معصوموں کی آواز سننے کو تیار نہیں ہے ہر روز تھرپارکر سے اُ ٹھنے والی صدائیں آہستہ آہستہ خاموش ہوتی جارہی ہیں سینکڑوں معصوم بچے غذائی قلت اور ادویات کی عدم دستیابی کے سبب لقمہ اجل بن رہے ہیں مگر ہمارے بے رحم حکمران اور دولت کی ہوس میں مبتلا مسیحا ء ان کے نزدیک آنے کے لیئے تیار نہیں۔
سیاسی و سماجی اداروں کی پامالی کے بعد میڈیکل کا شعبہ ہی ایساتھا جس پر کبھی امیدکی نظر ٹھہرتی تھی لیکن اب وہ سب امیدیں مایوسیوں میں بدلتی جا رہی ہیں ۔یہ درست ہے کہ ہر شعبہ میں کرپٹ افراد موجود ہیںلیکن دیگر شعبہ ہائے زندگی کا تعلق مختلف اُمورحیات سے ہوتاہے لیکن طب کاشعبہ ایساہے جس کا تعلق براہ راست انسانی زندگیوں کے ساتھ پیوست ہے۔
ایک حدیث میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے برابر قرار دیا گیا لیکن ہسپتالوں کے نام پر انسانی قتل گاہوں میں بے رحم ڈاکٹروں کے ہاتھوں بے موت مارے جانے والے لاتعداد مظلوموں کو ابھی تک مقتول کے برابر نہیں سمجھا جاتا ۔وہ اپنی جہالت اور غفلت پر پردہ ڈالنے کے لیئے محض قضائے الہی کہہ کر بے جان لاش ورثاء کے سپرد کردیتے ہیں۔یہ مذہبی قتل و غارت گری لسانی و مذہبی دہشت گردی سے کہیں زیادہ خوف ناک رجحان ہے۔
Doctor and Patient
ڈاکٹر مریض کے لیئے ایک قابل احترام مسیحا ء کا درجہ رکھتاہے ۔جس کا مشفقانہ اور ہمدردانہ سلوک ہی بیمارکی نصف بیماری دور کر دیتاہے ۔مگر اب ڈاکٹر یا مسیحاء کے ان افعال قبیحہ کی وجہ سے ان کو ” ڈاکو ” قصاب اور “جلاد”جیسے القاب سے پُکارہ جاتاہے ۔جس کے ذمہ دار مریض اور انکے اقرباء نہیں بلکہ خود ایسے معالجین کا غیر انسانی سلوک ہے ۔پاکستان کی ستر فیصد آبادی علاج معالجے کے لیے بنیادی مراکز صحت اور سرکاری ہسپتالوں کی طرف رجوع کرتی ہے ۔لیکن وہ ادویات کی عدم دستیابی اور عملے کی غیر حاضری اور ناروا سلوک کے نتیجے میں گونا گوں امراض کا شکار ہو رہی ہے ان میں اگر کوئی پرائیویٹ ہسپتالوں کا رُخ کرتا بھی ہے تو وہاں کی بھاری فیسیں اور ہو شربا اخراجات اسے معالج کی بجائے راضی بہ رضائے مولا ہوکر تکالیف جھیلنے پر مجبور کر دیتی ہیں ۔بنیادی طبی سہولتوں کی غیر موجودگی سے ہر سال لاکھوں انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں جیسے کہ تھر پارکر میں آئے روز معصوم بچے لقمہ اجل بن رہے ہیں اور ہمارے ٹی وی چینل اور اخبارات روزانہ کی بنیاد پر اموات کی تعداد کو اس طرح پیش کر رہے ہیں جیسے کیڑے مکوڑے مر رہے ہو اور تما م پاکستان انکی اموات کا تماشہ دیکھ رہا ہے مگر کہیں سے ان کی مدد کی صدا بلند نہیں ہو رہی۔
بظاہر تو ہم مغرب کے نت نئے فیشن میوزک اورکلچر کی نقالی کر کے اور پھر اس کے زور پر اپنے آپ کو تہذیب یافتہ قوم کے نمائندے کہلانا چاہتے ہیںلیکن کسی نے یہ سوچنے کی کوشش نہ کی کہ ہم مغر ب کی اچھائیوں کی بجائے برائیوں کو اپنا کر محض نقال اور بہروپیے ہی بن سکتے ہیں ۔ہماری سوچ کا رُخ اس طرف کیوں نہیں پھرتا کہ یورپی ممالک میں انسانی صحت کی کس قدر اہمیت دی جاتی ہے بلکہ انسان تو ایک طر ف جانوروں کے ماحولیاتی اور معالجاتی تحفظ کو بھی ہر صورت ممکن بنایا جاتا ہے لیکن یہاں انسانوں کو خالص ادویات کی دستیابی بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔جس ملک کے سب سے بڑے صوبے کے سابق گورنر اپنی بے بسی کا ماتم کرتے ہوئے مستعفی ہوجائیں تو وہاں عام آدمی کا پرسان حال کون ہو گا ۔ہمارے ہاں قومی ہیلتھ پالیسی بناتے وقت عام فرد کی ضروریات کو مدنظر نہیں رکھا جاتا ۔”ڈنگ ٹپاؤ”پالیسیاں ہمارے اداروں کی تباہی کا با عث بن رہی ہیں ۔عوام کی طبی سہولیات کو یقینی بنانے کے لیئے ضروری ہے کہ سرکاری ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی لگائی جائے اور اس پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔
ہسپتالوں میں ہمہ وقت عملہ مہیا کیاجائے غفلت کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے اور سستے داموں علاج معالجے کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔اگر دُکھی انسانیت کو سکھی زندگی مل جائے تو ان کی صحت مند سرگرمیاں اور صلاحتیں قوم و ملک کے لیئے فعال کردار ادا کر سکتی ہیں جب دماغ اورجسم صحت مند نہیں ہوگا تو ایک تعمیری معاشرہ اور پاکیزہ ماحول کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا ممکن نہیں۔بقول بابا بلھے شاہ چھیتی آویں وے طبیبا،نئیں تے میں مر گئی آں