تحریر : قادر خان افغان اٹھتے بیٹھے، لیٹے سوچتے بس ایک ہی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ملک ترقی کی جانب جا رہا ہے یا ہم تنزلی کی جانب جا رہے ہیں۔ پانامہ لیکس کا جب سے چورن بنا ہے، اسے بڑے دھڑلے سے فروخت کیا جا رہا ہے، عدالت میں کیس سنوائی میں ہے فیصلہ ابھی باقی ہے، دلائل سنے جا رہے ہیں، لیکن ہر سماعت کے بعد ہر مدعی و مدعاعالیہ اس وثوق کے ساتھ میڈیا کے سامنے وارد ہوتا ہے کہ جیسے مقدمے کا فیصلہ اس کے حق میں آ چکا ہے۔
اعلی عدلیہ کے معزز جج صاحبان نہ جانے اس بات پر نوٹس کیوں نہیں لے رہے کہ ان کی عدالت کو ان کی ہی عدالت کے گیٹ کے سامنے روز تماشہ بنایا جاتا ہے اور روز عوام کا وقت ضائع ہوتا ہے ۔ رہی سہی کسر ہمارا الیکڑونک میڈیا کے اینکرز پورے کر دیتے ہیں کہ وہ اپنے ٹاک شوز میں پھر روزانہ کی سماعت پر مرغوں کو لڑا دیتے ہیں۔ریٹنگ بڑھانے کے یہ انداز اب سب جان چکے ہیں لیکن ناظرین کے پاس محظوظ ہونے کے لئے کچھ اور پروگرام بھی تو نہیں ہے۔
جب سے ٹی وی پر انڈین نشریات و پروگراموں پر پابندی لگی ہے ، کیبل چینل والوں نے اتنی بار پاکستانی فلمیں چلا دیں ہیں کہ چینل بدلتے ہی، وہی پرانی فلم دیکھنے کو ملتی ہے جس سے اب ابکائی آنے لگتی ہے۔ عمر شر یف کو کبھی اتنا نہیں دیکھا گیا ہوگا ، جتنا کیبل چینل والوں نے ان کے پرانے اسٹیج ڈرامے دکھا دکھا کر ہنسنا بھی بھلادیا ہے۔ خبریں ن سے شروع ہوتی ہیں اور ع پر ختم ہوتی ہیں تو کبھی ع سے شروع ہوتی ہیں ، تو ن پر ختم ہوتی ہیں، انٹرٹینمنٹ کے نام پر جو ڈرامے ٹیلی کاسٹ کئے جارہے ہیں کہ انھیں فیملی کے ساتھ دیکھنا قدامت پسندی اور بے شرم ہوکر دیکھنا ترقی پسند کہلاتا ہے۔
ملکی کی سیاسی کا یہ حال ہے کہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی نظام ، پنجاب کے بلدیاتی نظام سے مختلف ہے ، پنجاب کا بلدیاتی نظام ، ماضی کی یاد تازہ کرتا نظر آتا ہے ، شاید اس کی وجہ اورینج ٹرین کی وجہ سے آثار قدیمہ اور لاہور کی شناخت کو نقصان پہنچنے پر کافی تنقید کی گئی تھی اس لئے اس بار انھوں نے اسی کوئی کوشش نہیں کی اور انگریزوں کا دیا ہوا نظام بحال رکھا ۔ سندھ میں تو بلدیاتی نظام کا آوا کا آوے ہی بگڑا ہوا ہے ۔ شہری علاقوں میں جتنا گند نظر آتا ہے اس سے لگتا ہے کہ کراچی کی عوام کافی خوش خوراک ہے اسی وجہ سے کچرے کے ڈھیر ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے اور سیوریج سسٹم بھی بیٹھ گیا ہے۔
کراچی کی عوام سے درخواست ہے کہ ڈایٹنگ پر آجائیں ، کفایت شعاری اختیار کریں ،تاکہ شہر میں گند نہ پھیلے اور سیوریج کا نظام خراب نہ ہو ۔ ماحولیاتی آلودگی جہاں اپنے عروج پر ہے تو کراچی والوں کو اس بار کوئٹہ کے مہمان کو کافی دن تک اپنے گھر میں برداشت کرنا پڑا ہے ،۔ حلوہ پوریوں ، پکوڑے اور سموسے اور ان کی چٹنی میں تیرتے گند کے باوجود ، کراچی والوں نے لاہوریوں کے ساتھ مقابلے کی بڑی کوشش کی ہے ۔ خیر یہ تو سب تمہد باندھ رہا تھا ، اصل میں شروعات میں پاناما کیس پر خیال آرائی کی کوشش کررہا تھا کہ ہمارے سیاست دانوں کو ملک کے عدالتی نظام پر بالکل اعتماد نہیں ہے ، اس لئے میڈیا کے سامنے آکر دلائل کی تشریح کرتے ہیں کہ فلاں نے جو بات کی تھی اُس کا یہ مطلب تھا ، مقدمہ تو ہم جیت چکے ہیں ، ہماری تو اخلاقی فتح ہوچکی ہے ، بس الیکشن کی تیاری شروع کر دیں۔
ان کا بس چلے تو ججوں کو بھی چلتا کردیں ، میری دانست میںشائد پانامہ کیس کا فیصلہ عدالت دو دن میں ہی سنا دیتی ، لیکن اس کیس کو میڈیا میں اس قدر سیاسی بنا دیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ اس مقدمے کا فیصلہ کسی بھی جانب کرتی ہے تو اس کا نتیجہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کا سبب بنے گا ، کیونکہ دونوں اطراف سے کارکنان کے اذہان برین واش کردیئے گئے ہیں کہ مقدمے کا فیصلہ ان کے حق میں ہے ،مخالف کے پاس ثبوت نہیں۔ ہر گلی کوچے میں کارکنان ایک دوسرے سے الجھتے نظر آتے ہیں، جج صاحبان اپنے تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ناچیز کو نہیں لگتا کہ عدالت اتنا بڑا فیصلہ کرلے اور اس کی مضمرات سے پاکستان میں ایک ایسی سیاسی انارکی پیدا ہو ، جس کا مدوا بھی ممکن نہ ہو سکے۔
Panama leaks
بھٹو پھانسی کیس کے بعد عدلیہ کا یہ سب سے بڑا فیصلہ ہوگا کہ اس سے پاکستان میں کئی لیڈروں کی سیاسی موت واقع ہوجائے گی ، ہونے کو تو شرم کے مارے ڈوب کر مرنے کی یہاں روایت نہیں ہے ، کیونکہ ہماری اپنی عوام میں بھی یہ رمق نہیں پائی جاتی ، کیونکہ عوام اور ان کے حکمران ، اپنی حب الوطنی کو اتنا بھی برداشت نہیں کرسکتے کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف کس قدر منظم منصوبہ بندی کی جار ہی ہے ، پاکستانیوں کو پیاسا مارنے کیلئے اس کے تمام حدود پھلانگ دی ہے ، لیکن ہم ابھی تک بھارتی ثقافت کے یلغار سے باہر ہی نکل سکے۔ سنیمائوں نے تو حب الوطنی کا روزہ توڑ کر بھارتی فلموں کی نمائش شروع کردی ، لیکن بھارت کی جانب سے پیچھے کی جانب ایک زور دار لات پڑی کہ جائو ہم تمھیں نئی فلم نہیں دیتے۔ کیوں ہماری فلموں کا بائیکاٹ کیا ، جہاں کہ عوام اور ان کے رہنما عجلت پسند ہوں ، وہاں پانامہ کیس کے بعد جو صورتحال بادی النظر آتی ہے ، اس سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اعلی عدلیہ تمام دلائل سننے کے بعد نواز شریف کو نااہل قرار نہیں دے سکتی ، کیونکہ وہ پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ اگر ایسا کیا گیا تو سراج الحق کے علاوہ یہاں تمام افراد اور پارلیمنٹ کو گھر جانا ہوگا ۔کیا اس کے بعد بھی کسی حکم کا انتظار ہے۔
اعلی عدلیہ کوئی انوسٹی گیشن ادارہ نہیں ہے بلکہ ایک آئینی ادارہ ہے ۔ آئین کی تشریح عدلیہ کی ذمے داری ہے ، لیکن عدلیہ بھی ان ہی قوانین کی تشریح کرتی ہے جو پارلیمنٹ بناتی ہے۔میرے اپنے ذاتی خیال میں ٹرکوں میں بھرے کچرے کے ڈھیر ،جنھیں عدلیہ نے رد کیا ، سردی میں آگ جلا کر گر می پیدا کرنے کے کام آئیں گے ، کبھی کھبار ایسا لگتا ہے کہ جیسے عدلیہ میں نہیں بلکہ کسی نادرا دفتر میں شناختی کارڈ کے حصول کیلئے آئے ہوں ، جیسے ، جی مجھے اپنے کارڈ کی تجدید کرانی ہے ، جواب ملتا ہے کہ والدین کا کارڈ ہے ، جی ہے،پیدائشی سرٹیفکیٹ ہے ، جی نہیں ، جائو پہلے وہ بنائو ، ، اچھا ، بے فارم ہے ، جی نہیں ، پہلے ب فارم بنا لائو ، ب فارم بنا لیا ، ڈومی سائل ہے ، جی نہیں ، جائو پہلے ڈومی سائل بنائو ، پی آر سی ہے ، جی نہیں ، جائو پہلے وہ بنائو ، والدین کا کارڈ 73کا ہے ، جی ، نادرا والا کیوں نہیں ہے ، جی اس وقت تک نادرا کا نظام نہیں تھا ، اچھا ، جائو دادا اور دادی کا کارڈ لائو ، جی ان کا تو انتقال ہوگیا ہے ، تو جائو ، موت کا سرٹیفکیٹ لائو ، قبرستان کی پرچی ہے ، نہیں جی وہ وہ تو 50سال پہلے انتقال کرچکے ہیں ، مولوی سے لکھوا کر لائو ، جی مولوی صاحب بھی انتقال کرچکے ہیں ، اچھا کورگن سے لکھوا کر لائو کہ وہ اس قبرستان میں دفن ہیں ، اچھا ، والدہ کا نکاح نامہ کہاں ہے ْ۔ جی ہمارے یہاں شرعی نکاح ہوتا تھا ، اب نہیں ہوتا جائو دوبارہ نکاح کراکر نکاح نامہ لائو ، جی اب لے آیا ہوں ، اچھا ، کہاں کے رہنے والے ہو ، جی کراچی ، لیکن نام میں تو خان لکھا ہوا ہے ، پٹھان ہو، جی پختون ہوں ، تو گائوں تو ہوگا ، جی گائوں میں پیدانہیں ہوا ، تو کیا ہوا ، داد دادای تو وہیںکے ہونگے جائو ، وہاں سے تصدیق کروا کر لائو ،۔ جی مجھے وہاں کوئی نہیں پہچانتا ، تو بھائی ہم کیا کرسکتے ، مجھے لکھ دیں کہ میں پاکستانی نہیں ہوں ، نہیں ایسا نہیں ہوسکتا ، پھر کیا کروں ، تمھیں گائوں جانا ہوگا ، اچھا ، وہاں اصل میں ہماری دشمنی ہے ، کوئی ہمیں مار دے گا۔
بھائی اب ہمارا دماغ خراب نہ کرو ، تو جناب مسئلے کا حل نکالیں ،۔ کیا نکالوں ، اچھا بتائو پاکستان کس نے بنایا تھا ، مہاجروں نے ، کیا مطلب ،وہ کہتے ہیں کہ پاکستان ہم نے لاکھوں افراد کی قربانیاں دیکر بنایا تھا ، تم نے کیوں نہیں بنایا ْ۔ میں پیدا نہیں ہوا تھا ، تو کب پیدا ہوئے ، جب پاکستان ٹوٹ گیا تھا ، کیا تمھاری وجہ سے ٹوٹا تھا ، نہیں ، میں اس وقت بچہ تھا ، اچھا پاکستان ٹوٹنے کے کتنے سال پہلے پیدا ہوئے ، جی دو سال پہلے ، اچھا تو جائو ، اس اسپتال کا سرٹیفیکٹ لائو ، جہاں پیدا ہوئے تھے ، جی گھر میں پیدا ہوا تھا ، دائی اماںکا حلفنامہ لائو ، جی ان کا انتقال ہوچکا ہے ، اچھا ان کا سرٹیفکیٹ لائو ، اچھا جی ،امی جی دائی اماں کہاں رہتی تھی ، وہ تو انتقال کرگئی ، پھر واپس نادار آفس ، جی دائی تو انتقال کرگئی اب پتہ نہیں ان کے خاندان والے کہاں ہیں ، اچھا ، لیکن اب تمھارا کارڈ نہیں بن سکتا ، یعنی میرے خاندان کا بھی کارڈ نہیں بنے گا ، میں پاکستان میں رہتے ہوئے بھی پاکستان کا باشندہ نہیں ہونگا۔
مجبوری قانون کے تقاضے پورے کرنا ہونگے ، کوئی حل تو بتائیں ، کورٹ میں کیس کردو ، جی وہاں کہاں سے فیصلہ آئے گا ، یہ بھی ٹھیک ہے ، ایک بات بتائو قائد اعظم رنگین مزاج تھے ، میں نے کہا کہ بالکل نہیں ، تو پھر کاغذوں میں مختلف رنگوں کی ٹوپیاں کیوں پہنے ہوئے ہیں ، ہاں یہ تو ہے ،تو جائو ، مجھے کچھ رنگ دار تصویریں قائد اعظم کی دو مجھے اُن سے بڑی عقیدت ہے ، پھر مجھے ایک ہفتے بعد کارڈ مل گیا ، پانامہ بھی رنگین بننے جارہا ہے ایسا لگتا ہے۔