تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر ملک ترقی کر رہا ہے اور مخالفین کو یہ ترقی ہضم نہیں ہو رہی، شیر اب کچھار سے باہر نکل آیا ہے گیدڑوں کو اب چھپنے کی جگہ بھی نہیں ملے گی، کچھ اسی طرح کے نت نئے فرمودات جاری فرما رہے ہوتے ہیں ہمارے ریلوے کے وزیر ذیشان جناب خواجہ سعد رفیق صاحب مگر موصوف کو اپنے ادارے کی کچھ خبر نہیں وہ تو صرف دفاع وزیر اعظمی کے فرائض ہی احسن طریقے سے سرانجام دینے میں مصر وف عمل ہیں سال 2013 سے تا حال پانچ سو سے زائد چھوٹے بڑے ٹرین حادثات ہو چکے ہیں جن میں سے دو سو سے زائد وہ حادثات ہیں جو پھاٹک نہ ہونے کی وجہ سے رونما ہوئے ۔ہر چیز میں ملک ترقی کر رہا ہے مگر ریلوے کا نظام وہی دور برطانیہ والا فرسودہ سا ہی چل رہا ہے۔
حال ہی میں شیخوپورہ میں ہونے والا ٹرین حادثہ جس میں کروڑوں روپے کا نقصان ہوا وہاں اللہ پاک کی خاص رحمت بھی شامل حال رہی کہ جانی نقصان بہت کم ہوا صرف تین لوگ آغوش اجل میں پناہ گزین ہوئے اور اٹھارہ سے زائد زخمی ہوئے ۔ واقعہ کچھ اس طرح ہوا کہ ہرن مینار روڈ شیخوپورہ والا پھاٹک عرصہ دراز سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے دونوں گیٹوں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے گڑھے ہیں سڑک ریلوے کی حدود میں ہڑپہ اور موہنجو داڑو کے کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہے انہی گڑھوں میں سے ایک میں آئل ٹینکر پھنس گیا ڈ رائیور نے انتہائی کوشش کی کہ کسی طرح وہ پھاٹک عبور کر لے مگر کامیاب نہ ہو سکا بلکہ انجن کا زیادہ زور لگنے سے تقریبا بیالیس ہزار لیٹر پٹرول لوڈ ہونے کی وجہ سے ٹینکر کا ایکسل ٹوٹ گیا اب ٹینکر پھاٹک کے بیچوں بیچ پھنس کر رہ گیا پھاٹک پر موجود ریلوے ملازم نے اپنے طور پر ریلوے حکام کو اطلاع کرنے کی کوشش کی وہ بیچارہ پیاسے کوے کی طرح ا دھر ادھر دوڑتا شور مچاتا رہا کہ کسی طرح اطلاع پہنچ جائے اور شالیمار ایکسپریس شیخوپورہ ریلوے اسٹیشن پر روک لی جائے تاکہ ٹینکر پھاٹک سے نکلنے کے بعد ٹرین کو وہاں سے گزارا جاسکے ۔قارئین کرام بات یہ ہے کہ اگر سارا ملک ترقی کر رہا ہے۔
موٹر وے بن رہے ہیں ، سی پیک کو عملی جامہ پہنایا جا چکا ہے ، ہر طرف کمپیوٹرائزڈ نظام رائج کر دیا گیا ہے تو پھر ریلوے میں وہی اٹھارہویں صدی والا نظام ہی کیوں چل رہا ہے ابھی تک ؟ ہر ریلوے پھاٹک پر جو ٹیلی فون لگا ہوا ہے یہ وہی ٹیلی فون ہے جس سے سلائی مشین کی طرح ہینڈل گھما کر پیغام رسانی کا کام لیا جا رہا ہے دو گز کی دوری پر بندہ اس فون کی گھنٹی کی آواز نہیں سن سکتا اس پر طرہ یہ کہ اس ٹیلی فون کی رینج اتنی محدود ہے کہ وہ صرف متعلقہ کیبن تک ہی اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے ۔المیہ یہ ہے کہ پھاٹک پر موجود ملازم یونس اپنے متعلقہ کیبن تک کالیں کرتا رہا ،کیبن والا اس کا پیغام نہ سن سکا بلکہ کیبن مین نے شالیمار ایکسپریس کو کلئیر کا سگنل دے دیا تھا اب ٹرین 120کلومیٹر کی سپیڈ سے فراٹے بھرتی آندھی کی مانند وہاں سے گزری اور ٹھیک ڈیڑھ یا دو منٹ بعد ہی آئیل ٹینکر سے جا ٹکرائی وہ تو خداوند حفیظ و ضامن کی مہربانی ہی سمجھیں کہ انجن کے بالکل ساتھ سواریوں والی کوئی بوگی نہیں تھی ٹرین ٹکرانے کے فوری بعد ہی ہولناک آتشزدگی نے پوری ٹرین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کی زد میں آکر ٹرین ڈرائیور عبداللطیف اور اسسٹنٹ ڈرائیور عبدالحمیدجل کر کباب ہو گئے تیسری بوگی میں چونکہ مسافر تھے اس لئے جب تک آگ وہاں پہنچی مسافروں کو چھلانگیں لگا کر جانیں بچانے کا موقعہ میسر آگیا ٹرین سے کودنے کی وجہ سے ہی اٹھارہ کے قریب مسافر زخمی ہوئے۔
میں تو یہی کہوں گا کہ اللہ پاک نے مسافروں کو غیبی مدد فراہم کر دی تھی جس کی وجہ سے مسافر محفوظ رہے باقی ریلوے کی کار گزاری ساری قوم کے سامنے ہی ہے ۔جب اس حادثے کے بارے میں اسٹیشن ماسٹر شیخوپورہ ملک سلطان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ یہ پھاٹک ہمارے انڈر نہیں بلکہ انجینئر نگ ڈیپارٹمنٹ کے انڈر آتا ہے اور نہ ہی ہمارا کوئی ٹیلیفونک نظام ہی اس پھاٹک کے ساتھ منسلک ہے ۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جناب سعد رفیق صاحب جب سارا ملک ترقی کر رہا ہے تو ریلوے کو جدید مواصلاتی نظام کیوں فراہم نہیں کیا گیا ؟وہ اب تک کیوں بیوہ کی سلائی مشین جیسے ٹیلی فون پر اکتفا کئے بیٹھے ہیں ؟ تمام پھاٹکوں کے ساتھ جو بڑے بڑے گڑھے منہ کھولے موجود ہیں ان گڑھوں میں کیا ترقی ڈوب کر مر جاتی ہے ؟ریلوے کے فرسودہ نظام کو کب اپ گریڈ کیا جائے گا ؟جب بہت ساری انسانی زندگیوں کو نگل کر یہ ملکی آبادی کو کم کرنے کا فریضہ انجام دے لے گا ؟اب تک جتنے حادثات ہوئے انکے بعد کیا تمام پھا ٹکوں پر گیٹ لگا دیئے گئے ہیں ؟کیا ہر اسٹیشن ماسٹر یہی کہے گاکہ ریلوے اسٹیشن سے ملحقہ صرف دو پھاٹک ہماری ذمہ داری ہیں دوسرے ہماری ذمہ داری نہیں ؟ ہم کب تک اپنی خطائوں کا ملبہ دوسروں پر ڈالتے رہیں گے۔
خدارا محفوظ ترین سفر کو خوف کی علامت مت بناتے جائیں ۔کیونکہ ریلوے گورنمنٹ آف پاکستان کا ادارہ ہے اس وجہ سے عوامی وزیر صاحب یا کوئی بھی عوامی حکومت ابھی تک اس کو اپ گریڈ کیوں نہیں کر پائی ۔سڑکیں اور موٹر وے تو سب بناتے چلے جا رہے ہیں ہم کیونکہ ہماری اسمبلیوں میں ٹرانسپورٹر ممبران کی بہتات جو ہوئی ان سے ہم نے حکومت سازی کے لئے ووٹ جو لینے ہوتے ہیں ، پھر ہم قومی اداروں کی بہتری کے لئے کوئی اقدام کیوں اٹھائیں ۔ معزز قارئین کرام اگر ہر ریلوے پھاٹک پر کمیونیکیشن کے جدید آلات مہیا ہوں تو کوئی یونس چیخ و پکار کرتا دکھائی نہ دے گا ،اگر ریلوے حدود میں موجود سڑکیں بالخصوص پھاٹک کے قرب و جوار میں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوں تو پھر کسی آئیل ٹینکر کا ایکسل بیچ منجدھار نہیں ٹوٹے گا۔
اٹھارہویں صدی والے آلات سے تو پیغام محض کیبن تک بھی جائے تو پانچ فٹ کی دوری پر کیبن مین آواز نہیں سن سکتا اس سلائی مشین جیسے ٹیلی فون کی ، اگر ہر پھاٹک پر وائرلیس سسٹم ہو تو چند لمحوں میں ہیڈ کوارٹر تک کو خطرے سے آگاہ کیا جا سکتا ہے ، پھر کوئی ملک سلطان یہ نہیں کہے گا کہ سرف اسٹیشن سے متصل دو پھاٹک ہی ہمارے انڈر ہیں باہر والے انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری ہیں اور نہ ہی متصلہ دو پھاٹکوں کے علاوہ کسی کا ہم سے کوئی ڈائریکٹ رابطہ ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی قومی حکومت کبھی کسی قومی ادارے کی بہتری کے بارے میں بھی سوچے گی ؟کیا قومی اداروں کو جدید سہولیت بہم پہنچانے سے حکومت کی توہین ہوتی ہے ؟ جو ادارہ ذرہ برابر بھی دیکھا کہ خسارے میں جا رہا ہے اس کی نجکاری پر تو فوری سوچ بچار شروع ہو جاتی ہے کبھی کسی نے یہ سوچا کہ نجکاری حل نہیں بلکہ جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے قومی اداروں کی بہتری کے لئے کوئی پلان بنایا جائے ۔یہ کوئی حل نہیں کہ حادثے کے بعد کبھی ڈرائیور قصور وار تو کبھی پھاٹک والا، ہم اپنا قصور کب دیکھیں گے ؟قومی اداروں کو قومی لیڈران قوم کا فرد بن کر کیوں نہیں دیکھتے۔
DR M H BABAR
تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر Mobile;03344954919 Mail ;mhbabar4@gmail.com