ملک میں ڈالر کی اونچی پرواز جاری ہے جو کہ فی ڈالر کی قیمت تقریباً پاکستانی 125 روپے میں ہے ملک میں زر مبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی ہورہی ہے صرف ڈالر کی قیمت میں آضافے کی وجہ سے ہمارے غیر ملکی قرضوں میں 4 ارب ڈالر کا آضافہ ہوگیا ہے
ایک طرف ڈالر کی پرواز جاری ہے تو دوسری جانب قرض کے بوجھ میں مسلسل آضافہ ہورہا ہے جبکہ سالانہ 15 ارب ڈالر ملک سے باہر بھجوائے جارہے ہیں ، عدالت عظمٰی کے حکم پر قائم کرد کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ ایک سال میں 15 ارب ڈالر ملک سے باہر منتقل کیے گئے
ملک میں قومی خزانہ مزید خالی ہو جانے کے وجہ سے وہ خالی برتن کی طرح بجنے لگا ہے ، خالی خزانے کے باوجود ملک میں کرنسی نوٹ چھاپنے والی مشین بھی مسلسل چل رہی ہے جس کا سوئچ آف کرنے والا کوئی نہیں ہے ، اسٹیٹ بنک کی تازہ رپورٹ کے مطابق بیرونی قرضہ جی ڈی پی کا 82.3 فیصد ہو چکا ہے جس کی حد زیادہ سے زیادہ 60 فیصد ہونی چاہیے جو آج سے چار پانچ ماہ قبل 66 فیصد تک تھی، امریکی امداد بند ہونے کے بعد ماہ اپریل میں چینی بنکوں سے ایک ارب ڈالر قرض لیا گیا ، اب الیکشن سر پر ہیں اور ان پر ہونے والے آخرجات بھی آنے ہیں اور ایک سے زیادہ حلقوں میں کھڑے ہونے والے امیدواروں کے ضمنی الیکشن بھی ہوں گے
اب ان تمام حالت کے ساتھ مزید مشکلات بھی سامنے آرہی ہیں ، ایک تو الیکشن کے بعد بننے والی نئی حکومت کو خزانہ خالی ملے گا دوسرا خظرہ امریکہ کی طرف سے سخت پابندیوں کا بھی ہو سکتا ہے ، کیونکہ 24 جون سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس پیرس میں شروع ہو چکا ہے جو 29 جون کو اختتام پذیر ہوگا ، فروری میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں پاکستان کا نام تین ماہ کے لیے گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا ، اس تین ماہ کے دورانیے میں پاکستان نے 25 اپریل کو 27 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ ارسال کی تھی جسے تین رکنی ٹیم نے مسترد کر دیا تھا ، اس کو مسترد کرنے کی وجہ انہوں نے کہا ہے پاکستان نے منی لانڈرنگ اور فنانسگ ٹرارازم کے حوالے سے مطلوبہ اقدامات نہیں اٹھائے ہیں
اس تین مہینے کے وقت میں پاکستان میں ایک تو حکومت مدت پوری ہونے کے بعد اسمبلیاں تحلیل ہوگئی ہیں ، دوسرا بمبئی حلموں کے حوالے سے نواز شریف کا متنازعہ بیان ، اسد درانی کی کتاب کا معاملہ بھی اثر انداز ہو گا۔
اب 29 جون کو پتہ چلے گا آیا پاکستان کو مزیدے کچھ ماہ گرے لسٹ میں رکھا جاتا ہے یا نہیں یا کسی اور لسٹ میں نام ڈال دیا جاتا ہے کچھ کہنا قبل از وقت ہے بہرحال خزانہ بھی خالی ہے ڈالر مہنگا ہے اور مہنگائی زوروں پر ہے۔