اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے پنجاب انسٹیوٹ آف کارڈیالوجی ہسپتال میں 90 افراد کی ہلاکتوں پر ازخود نوٹس کیس میں وفاق اور چاروںصوبائی حکومتوں سے ہسپتالوں میں فراہم کردہ سہولیات کی تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت مئی کے تیسرے ہفتہ تک ملتوی کردی جبکہ جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دیئے ملک میں ہیلتھ سیکٹر کی اپنی حالات خراب ہے حکومت اس کا کچھ کرے ایسا نہ ہو ہیلتھ سیکٹر کو ہی آکسیجن لگانی پڑ جائے، ادویات مہنگی اور ہسپتالوں کے برے حال کی وجہ سے غریب آدمی کیلئے بیماری کا سوچنا بھی عذاب ہے۔
قائم مقام چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ میڈیکل کالجز میں ہسپتال موجود نہیں۔ نہ جانے ڈاکٹر ز ٹریننگ کہاں سے حاصل کرتے ہیں۔ سوموٹو کے دوران علم ہوا کہ ملک بھرکے ہسپتالوں کا برا حال ہے اور اس محکمہ میں ہنگامی بنیادوں پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ پنجاب کے ایک سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹرز اور سٹاف نے ملکر طبی آلات منگوائے۔
صحت کی سہولیات کی فراہمی ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے اور عدالت عوام بنیادی اور آئینی حقوق کی محافظ ہے، عدالت بنیادی حقوق کے اس مسئلہ پر خاموش نہیں بیٹھ سکتی۔ یہ کیس پہلے لاہور میں چل رہا تھا، عدالت کسی کیخلاف نہیں اگر کسی صوبے کی جانب سے کوتاہی ہوئی تو عدالت مداخلت کریگی، پیرامیٹر طے ہونے چاہئیں کہ طبی سہولیات، ادویات، ماہر ڈاکٹرز کا کیا معیار ہونا چاہئے۔
صوبے اور متعلقہ ادارے اس سلسلے میں معاونت کریں۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ امیر آدمی کہیں نہ کہیں سے علاج کرا لیتا ہے مگر غریب کیا گرے؟ ملک بھر میں فیکلٹی میڈیکل کالجز ہیں مگر وہ مطلوبہ معیار پر پورے نہیں اترتے، بنیادی صحت کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے مگر اس کیلئے سخت قوانین اور ریفارمز ضروری ہیں۔ جسٹس اقبال حمید الرحمان نے کہا کہ لیہ کے ہسپتال میں زہریلی مٹھائی کھانے والوں کیلئے علاج کی کوئی سہولت میسر نہیں تھی۔