تحریر : صادق مصطفوی وقت کی رفتار کے ساتھ ہر میدان میں ترقی ہو رہی ہے۔ جدید سائنس نے دنیا کا رنگ ہی بدل دیا ہے۔ زندگی کے معمالات برق رفتاری کے ساتھ حل ہو رہے ہیں۔ جہاں تعلیم حاصل کرنے کے ذرائع میں وسعت پیدا ہوئی ہے وہاں آج دنیا کے تمام مذاہب میں اس بات کی کمی شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے کہ مذہبی حلقوں نے وقت کے ساتھ دین کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا۔
مدارس کے نصاب میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق مضامین کو شامل نہیں کیا گیا۔ اپنی تقاریر میں علمی بحث کی بجائے قصہ کہانیوں سے جوش خطابت دیکھایا جاتا ہے۔ علم سے دوری نے ادب سے دور کر دیا، علماء کا اہل علم کی مجالس سے کنارہ کرنے سے عوام ان علماء سے بیزار ہوتی چلی گئی۔
آ ج ہم کہتے ہیں کہ سیاست ایک بزنس بن چکا ہے۔ سیاستدان صرف اپنے ذاتی مقاصد ، دولت کی ہوس اور اختیارات کا نشہ حاصل کرنے کیلئے الیکشن میں حصہ لیتے ہیں۔ ان کے مقصد عوام کی خدمت نہیں بلکہ عوام سے اپنی خدمت کروانا ہوتا ہے۔ عوام کی خوشحالی نہیں بلکہ عوام کے ٹیکس کی رقم سے عیاشی کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں۔ اگر ہم علماء کی طرف نظر کریں تو ایسی ہی صورت حال دیکھنے کو ملے گی۔ مساجد میں امامت کے فرائض سر انجام دینے والے معزز امام مسجد کی اکثریت تعلم یافتہ تو کیا پرائمری پاس بھی نہیں ہیں۔
اسی طرح جمعہ کی خطابت کے اہم منصب کو سنبھالنے والے علماء کی اکثریت سکول و کالج کی تعلیمات تو دور کی بات ، وہ شریعہ کی تعلیم یعنی درس نظامی کے سند یافتہ بھی نہیں ہیں۔ بقول حضرت علامہ محمد اقبال ؒ گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا کہاں سے آئے صدا لاالہ الا اللہ عوام میں سیاسی اور مذہبی شعورپیدا کرنے والے ان دونوں طبقات کی جب یہ صورت حال ہو گی تو اسلام کے ان دونوں سیاسی ، اور مذہبی پہلو سے عوام کیسے با خبر ہو گی۔ اگر ہم اس کی وجوہات معلوم کرنا چاہیے تو اس کی ذمہ دار عوام خود ہی ہیں۔
الیکشن میں اگر کوئی اچھے کردار کاامیدوار سامنے ہو تو ہم اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیتے ہیں کہ آپ تو شریف انسان ہو آپ کا کیا کام سیاست میں اور ان کرپٹ ، بدمعاش ، بدکردار خصوصیات کے مالک سیاستدانوں کو ہم خود ہی منتخب کرتے ہیں ۔ اور جب یہ اقتدار میں آکر اپنی صفت کے مطابق کرپشن، ظلم و ستم کا بازار گرم کرتے ہیں تو ہماری چیخیں کیوں نکلتی ہیں۔ ہم مساجد میں امام مسجد بھی اس شخص کو مقرر کرتے ہیں جوتنخواہ کی بجائے صدقات، ختم قرآن اور دو وقت کامحلے سے کھاناملنے پر گزار کر سکتا ہو۔
ہم اپنے ان پڑھ لڑکے کیلئے تو 15,20 ہزار سے کم ماہانہ آمدن قبول نہیں کریں گے لیکن جس کے ذمہ اپنے علاقے کی مذہبی قیادت سپرد کر رہے ہوتے ہیں اس کیلئے دس ہزار بھی زیادہ محسوس کرتے ہیں۔ یعنی ہماری ترجیحات میں اچھے علما ء اور سیاستدان شامل ہی نہیں۔ اپنی تقدیر بدلنے کا جب ہمیں خود ہی خیال نہ ہو، جب ہم خود ہی اس میں سنجیدہ نہ ہوں، تو اس ماحول میں پروان چڑھنے والی ہماری نسلیں وقت کے تقاضے کے مطابق ان کی رہنمائی کرنے والے نہیں ہوں گے تو پھر ان میں شعوری فقدان کے باعث انتہا پسندی جنم لے گی۔ جس کے ذمہ دار یہاں ہمارے سیاستدان، علما ء ہیں وہاں ہم خود بھی ہیں۔
ہمیں اپنی نسلوں کو ان سیاستدان اور علما ء کی تعلیمات سے روشناس کرانا ہو گا جو اسلام کے امن پسند اور حقیقی مذہبی و سیاسی پہلو سے آگاہی رکھتے ہوں۔ ہمارے ہمسائے ملک انڈیا نے پاکستان کے مذہبی وسیاسی سکالرڈاکٹر طاہرالقادری کے پیش کئے گئے امن نصاب سے استفادہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ تو ہم اپنے ملک میں انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے ان کی خدمات سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے۔ کسی سے سیاسی یا مذہبی اختلافات کا معنی یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں اپنی انا ملکی مفاد سے زیادہ عزیز ہو۔ یہ ملک ہماری پہچان ہے ۔ اور اس کی سلامتی کیلئے ہم سب نے مل کر انتہا پسندی کا خاتمہ کرنا ہے۔