ایک بزرگ تھے، ملک میں قحط پڑا ہوا تھا، خلقت بھوک سے مر رہی تھی، ایک روز یہ بزرگ اس خیال سے کچھ خریدنے بازار جا رہے تھے کہ نہ معلوم بعد میں یہ بھی نہ ملے۔ بازار میں انھوں نے ایک غلام کو دیکھا جو ہنستا کھیلتا لوگوں سے مذاق کر رہا تھا، بزرگ ان حالات میں غلام کی حرکات دیکھ کر جلال میں آ گئے، غلام کو سخت سست کہا کہ لوگ مر رہے ہیں اور تجھے مسخریاں سوجھ رہی ہیں۔
غلام نے بزرگ سے کہا ’’آپ اللہ والے لگتے ہیں، کیا آپ کو نہیں پتا میں کون ہوں..؟‘‘ بزرگ بولے ’’تو کون ہے..؟‘‘ غلام نے جواب دیا ’’میں فلاں رئیس کا غلام ہوں جس کے لنگر سے درجنوں لوگ روزانہ کھانا کھاتے ہیں۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جو غیروں کا اس قحط سالی میں پیٹ بھر رہا ہے وہ اپنے غلام کو بھوکا مرنے دے گا؟ جائیں، آپ اپنا کام کریں۔
، آپ کو ایسی باتیں زیب نہیں دیتی‘‘۔ بزرگ نے غلام کی بات سنی اور سجدے میں گر گئے، بولے ! ’’یا اللہ! مجھ سے تو یہ ان پڑھ غلام بازی لے گیا، اسے اپنے آقا پر اتنا بھروسہ ہے کہ کوئی غم اسے غم نہیں لگتا اور میں جو تیری غلامی کا دم بھرتا ہوں یہ مانتے ہوئے کہ تو مالک الملک اور ذوالجلال ولااکرام ہے اور تمام کائنات کا خالق اور رازق ہے میں کتنا کم ظرف ہوں کہ حالات کا اثر لے کر ناامید ہو گیا ہوں۔
بے شک میں گناہ گار ہوں اور تجھ سے تیری رحمت مانگتا ہوں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہوں۔