تنازعات میں گھرا ہوا یہ ملک اگر جان لے کہ یہ ملک کسی حکمران کا نہیں پوری اسلامی امة کا مرکز ہے تو بھاری بھرکم ذمہ داریاں اس ملک کے ہر حکمران کو سابقہ حکومتوں پر طعنہ زنی کی بجائے امة کی ترقی کیلئے صرف کرےگا جو حکومت آئی اس نے ہمیشہ سابقہ حکومت کو کسی جاہل گنوار عورت کی طرح بین کرتے اور دہائیاں دے کر اپنی ناقص کارکردگی پر پردےڈالے یوں مدتوں سے ہر شعبہ متنازعہ اور ہر کامیابی مشکوک یہ بد نصیبی ہے اس ملک کی انہی مشکوک کامیابیوں میں سب سے بڑی مشکوک کامیابی اسلامی ایٹم بم جسے بنانے کیلیے ملک کو جوہری صلاحیت دینے کے خواہاں محب وطن پاکستانی جناب ڈاکٹر قدیر صاحب اپنی غیر ملکی بیگم کے ساتھ اپنی آرامدہ اور بہترین زندگی چھوڑ کر اس ملک کو عظیم سے عظیم تر بنا کر خود رسوا ہونے پردیس چھوڑ کر دیس میں داخل ہوئے بڑے لوگ بڑی سوچ رکھتے ہیں صرف اپنی کسی صلاحیت کو اپنے لئے یا خاندان کیلیۓ خاص کر کے معاشرے میں اپنی ذاتی حیثیت مستحکم نہیں کرتے بلکہ اپنی وسیع بڑی سوچ سے وہ جانتے ہیں کہ وہ کمزور کم تعلیم یافتہ ملک کے فرد ہیں انہیں کچھ ایسا کرنا ہے کہ ان کی تعلیم ان کے لوگوں میں شعور بیدار کرے ان کا کچھ بھلا ہو ڈاکٹر قدیر ایک ترقی یافتہ ملک میں کامیاب پوسٹ پر تھے اپنے ملک کی غربت اور سر پے سوار ہمیشہ کا دشمن بھارت ایٹم بم بنانے کے بعد اور سر پے چڑھ گیا تھا بھارت کے اس ایٹم بم کا توڑ کرنے کے وہ قابل وہ تھے اپنی قابلیت سچائی اخلاص کے ساتھ اللہ پر کامل ایمان تھا کہ جو وہ سوچ رہے ہیں وہ ضرور ہوگا پاکستان جیسے چھوٹے اور غریب ملک کیلئے ایٹم بم مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے تاریخ رقم کر دی کہ جب ہر منسلک ادارے کو سہولیات کی فراہمی کے لئے کسی بھی مدد کیلیۓ ڈاکٹر صاحب کی بات کو اپنا حکم قرار دیا قوم کو عظیم بنانے کے اسی عزم کی پاداش میں وہ پھانسی کے مستحق ٹھہرے دنیا دنگ رہ گئی کہ اس ملک نے یہ کر کیسے لیا اور اِس ملک نے یہ کمال دکھایا کہ بجائے دشمنوں کی سازشوں پر ڈٹ کر اپنے محسنوں کا دفاع کرتی انہیں سر عام خود اپنے ضمیر کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا تیسرا محسن نواز شریف آج انکی کیا درگت بنائی گئی اور بائیس کروڑ میں صرف ایک گھرانہ ہے جو ملک کے ہر جرم میں حصہ دار ہے آپ کو یاد دلائے گا یہ انداز آج کی سیاست کا نہیں دہائیوں سے ہر محسن کے ساتھ یہی ہو رہا ہے وہی سلوک جو قائد اعظم لیاقت خان اور مادر ملت کے ساتھ ہوا یہ سب قوم کے محسنین ہیں سوچیں کیا کیا ان کے ساتھ کیا قصور تھے ان کے ؟ چھوٹی سوچ والوں میں بڑی سوچ کے مالک تھے یہی اکلوتا جرم تھا ان سب کا مجھے اپنی سکول ٹیچر کی اکثر ایک بات یاد آتی ہے تو دل چاہتا ہے اب اگر وہ زندہ ہوں کہیں ملیں تو انہیں کہوں آپ غلط کہتی تھیں فیل ہونے والی لڑکیوں کو کیا بنے گا تمہارا ؟ آج تو پاکستان سب کچھ وہی تو درست بنا رہی ہیں جو تعلیمی میدان میں صفر تھیں چالاکیوں میں اول نمبر پر ہیں ایسے ملک میں جہاں ہر کامیابی دو نمبر ہو ڈاکٹر صاحب جیسے اول نمبر لوگ ہمیشہ ہی ناکام اور باعث عبرت ہی بنائے گئے ہیں ڈاکٹر قدیر ہوں یا قائد سب ہی تعلیم یافتہ تھے جبھی تو انجام سب کا ملتا جلتا ہی ہوا مگر تاریخ پوری سچائی سے تلخ حقائق کے ساتھ ہمیشہ بتاتی رہے گی کہ بھٹو ضیاء الحق نواز شریف وہ تھے جو ڈاکٹر صاحب کے معاونین ھیں جو کسی صورت اس منصوبے سے پیچھے نہیں ہوئے قوم کی خوشحالی کیلئے ڈاکٹر قدیر صاحب کی دن رات کی کاوش کیلئے ان سب نے تن من دھن سے انکی ہر ضرورت کو اس عظیم منصوبے کی تکمیل کیلئے مہیا کیا چاغی میں کامیاب ایٹمی تجربے کے بعد ہم ایٹمی قوت بن کر ابھرے اس خاص دن کو ہمیشہ زندہ رکھنے کیلئے قوم سے ہی تجویز مانگی گئی یوم تکبیر کا نام قوم نے تجویز کیا یہ رسم ہے اسلامی کلچر کی سابقہ اسلامی ادوار میں جب جب مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی تو جنگل صحرا بیاباں کوہسار میدان اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھے جیسا کہ حضرت عمر ؒ کے قبول اسلام پر صحابہ کرام نے اس قدر پرجوش انداز میں نعرہ تکبیر بلند کیا کہ مکہ کے پہاڑوں کے پار پیغام گیا اب اسلام کی طاقت بڑہتی ہی چلی جائے گی بالکل اسی طرح جس دن چاغی میں دھماکے ہوئے تو اتنی کثرت سے اس روز پاکستانی قوم نے اللہ اکبر کہا کہ اسی کو خاص کر دیا گیا ہم وہ مظلوم اور مشکوک قوم ہیں جن کے پاس سونے چاندی کےذخائر ہیں قدرتی گیس کے لامحدود وسائل ہیں نمک کی کان ہیں برفپوش پہاڑی علاقے اور جنت نظیر وادیاں ہیں چار موسم ہیں جرآت ہمت اور جزبوں سے سرشار قوم ہے مگر یہ کیا؟ ایسا خوشحال اور قدرتی وسائل سے مالا مال ملک نجانے کس خوف کا شکار ہے نہ اپنی کسی خوشی کا اظہار برملا نہیں کر سکتا ہے اور نہ ہی بوقت ضرورت کسی بھی طاقت کو بھرپور استعمال کر کے اپنی کمزور ساکھ کو مضبوط کر سکتا ہے یہ سوالیہ نشان ہمیشہ سے ہمارے ہر ادارے پر ہے آج 2020 میں بھی یہی ہوا کرونا سے مرتی قوم کی فکر سے زیادہ اہل سیاست کو یوم تکبیر کے تاج کو اپنے اپنے سر پر سجانے کی کوشش تھی سب کے بے تحاشہ ذکر میں کہیں کہیں ڈاکٹر صاحب کو بھی لمحہ بھر عزت بخشی گئی ذرا ذرا کہیں اس محسن کا بھی ذکر ہوا وہ انسان جس نے عمر دے دی اس بے حس ملک کو جس عظیم انسان کا قوم پر احسان آج ہرکوئی ذکر کرنے سے محروم تھا ان کی جگہہ ہیرو کے طور پے وہ بودے اور لڑکھڑاتے لہجے کے ساتھ خود ہی جھوٹے دکھائی دے رہے تھے اتنے چینلز پر جاری اتنی بحث کو دیکھ کر دل میں خیال آ رہا تھا کہ میری مرضی ڈے اگر منایا جا سکتا ہے تو پھر منانے والے خاص دنوں میں ایک دن ضرور ۔۔۔۔۔۔۔یوم وفات محسنین ۔۔۔۔۔ نامی ایک دن ضرور ہونا چاہیے جو اظہار کرے کہ ہم کس قدر بے حس اور احسان فراموش ہیں تا کہ اس روز ہر وہ شخص ڈاکٹر قدیر سمیت اس ملک کے ہر محسن کو ضرور سوچے اور اس ملک کی مخلصانہ خدمت کرنے اسے شاندار بنانے کے بعد ان کے المناک اور عبرتناک انجام کو ذہن میں رکھتے ہوئے ملک کی ترقی کی خاطر خود کو پیش کرنے سے پہلے ضرور سوچے گا ملک یا اپنا خاندان بچوں کیلئے محفوظ باعزت زندگی گزارے ملک کو عظیم بناتے ہوئے زندگی کے ماہ و سال کہاں کھپا دیے وصولی کیسی ذلت آمیز ہوئی یہ احساس زیاں نہ ہو جس ملک میں اداکاراوں کو تمغہ حسن کارکردگی ملے اور جس نے دنیا میں ملک کو زندہ کیا ہو تمغہ یا انعام تو دور کی بات ہے سرعام معافی منگوا کر ہر وسیع سوچ کر تنبیہہ کردی جائے کہ اپنا انجام سوچ کر آگے بڑہنا ملک آزاد ہوا تھا ذہن ابھی بھی غلام ہے درخواست ہے اہل دانش سے سال کے خاص دنوں میں ایک اور دن کا ضرور اضافہ کر لیں انشاءاللہ ڈاکٹر قدیر جیسے بہت سے سادہ اور مخلص لوگوں کا فائدہ دے گا یہ یوم وفات محسنین