ملک میں منتخب حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کر کے ختم ہوگئی نگران وزیراعظم جناب ناصر الملک نے اپنی چھ رکنی کابینہ بھی تشکیل دیدی سندھ کا نگران وزیراعلی بھی آگیاباقی تین صوبوں کے لیے نگران وزیر اعلی معاملہ پارلیمانی کمیٹیوں کے سپرد ہوگیااگر ان جمہوری نمائندگان سے بھی نہ فیصلہ ہوسکا تو پھر کے پی کے کی طرح یہ بھی الیکشن کمیشن کے سپرد ہوجائیں گے ہماری سیاست ابھی بالغ ہوسکی نہ ہی جرات مند اور نہ ہی کوئی سبق سیکھ سکی جس سیاسی عمل کو جاری رکھنے کے دعوے اور وعدے کیے گئے۔
خلائی مخلوق کا بار بار ذکر کیا گیا مگر سیاستدان خود اپنے آپ کو منظم نہ کرسکے 22کروڑ عوام میں سے کونسلر،وائس چیئرمین، چیئرمین، سابق ناظمین،سابق اراکین اسمبلی اور سابق وزرا میں سے کوئی ایک ایسا شخص نہ مل سکا جو بطور نگران وزیراعظم یا نگران وزیراعلی بن کر ملک کے سیاسی معاملات کو آگے بڑھا سکتا رہی سہی کثر ان سیاستدانوں نے ایک دوسرے کا گریبان پکڑ کر پوری کررکھی ہے اور جو بچا تھا اسے ریحام خان نے چونا لگا دیااچھی بات ہے سیاستدانوں کی زندگی عوام کے سامنے آنی چاہیے اور اب عوام کو سمجھدار ہوجانا چاہیے کیونکہ ملک میں اب عام آدمی کے لیے ہر طرف پریشانی ہی پریشانی ہوگی رمضان المبارک کا آخری عشرہ جاری ہے اور ملک میں گرمی بھی اپنے عروج پر ہے ایسے میں بجلی اور پانی کی کمی کسی عذاب سے کم نہیں کراچی سمیت پورے ملک میں شہری صاف پانی کو ترس رہے ہیں زرعی شعبہ بھی پانی کی کمی کا شکار ہے مجھے یاد ہے کہ قومی اسمبلی کا آخری اجلاس چل رہا تھااور قائد حزب اختلاف جناب خورشید شاہ صاحب فرمارہے تھے کہ اگر سندھ کو پانی نہیں دیا گیا تو ہم اپنی سرحدیں بند کردینگے شاہ صاحب کو شائد یاد نہیں کہ ان گذرنے والے پانچ سالوں میں برادرانہ اپوزیشن کا کردار اداکرنے والی پیپلز پارٹی اس سے پہلے پانچ سال حکومت میں رہی تو آپ لوگوں نے پانی کے لیے کیا کام کیا صوبوں میں آپ براجمان ہیں ہمارے دریا خشک ہورہے ہیں نہروں میں پانی کم ہورہا ہے بارشوں سے حاصل ہونے والا پانی ضائع ہورہا ہے اسے ذخیرہ کرنے کے لیے کسی حکومت نے کچھ نہیں کیا کالا باغ ڈیم کے سب سے بڑے مخالف آپ لوگ ہیں باقی کے کے پی کے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
یہ وہ عظیم الشان منصوبہ ہے جو ہماری سیاست کی نظر ہوگیا کالا باغ ڈیم کے حوالہ سے بتاتا چلوں کہ اس میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 8ملین ایکڑ فٹ ،قابل استعمال پانی کا ذخیرہ 6ملین ایکڑ فٹ ،کالا باغ ڈیم سے 3600میگا واٹ بجلی حاصل ہوگی جسکی وجہ سے سالانہ 1.6 ارب ڈالر کی سستی بجلی حاصل ہوسکے گی کالا باغ ڈیم پر 8ارب ڈالر لاگت آئے گی اور یہ لاگت کالا باغ ڈیم 5سال میں پوری کرلے گاکالا باغ ڈیم پر اس وقت تک پاکستان کے تقریبا ایک ارب روپے خرچ ہوچکے ہیں کالا باغ ڈیم اب بھی پانچ سال کے قلیل عرصے میں تعمیر ہوسکتا ہے کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے صوبہ خیبر پختونخواہ میں دریا سے بلند ی پر واقع 8لاکھ ایکڑ رقبہ زیر کاشت آسکتا ہے جبکہ صوبہ سندھ میں بھی کالا باغ ڈیم کی تعمیرسے خریف کی کاشت کے لیے پانی دستیاب ہوسکے گا جسکی شدید قلت رہتی ہے کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے انڈس ڈیلٹا کی سیم زدہ 20لاکھ ایکڑ زمین بھی قابل کاشت ہو جائیگی یہ صرف ایک منصوبہ ہے جسکی تعمیر سے پاکستان میں خوشحالی کی ہوائیں چلنا شروع ہو جائیگی مگرہمارے سیاستدان عوام کی خوشحالی نہیں چاہتے وہ چاہتے ہیں کہ عوام دن بدن غربت کی دلدل میں دھنستے رہیں تاکہ وہ ایک دیگ بریانی پر ان سے ووٹ خرید سکیں جبکہچند روز قبل توقع کے عین مطابق عالمی بینک نے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر پر پاکستان کی شکایات اور شواہد کو ناکافی قرار دے کر مسترد کر دیا ہے یہ کشن گنگا ڈیم کی تعمیر 2009 میں شروع ہوئی جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور ن لیگ مضبوط اپوزیشن تھی۔2011 کے بعد دو سال تک یہ کیس عالمی عدالت میں چلتا رہا لیکن بالآخر عالمی ثالثی عدالت نے نہ صر ف پاکستان کے اعتراضات مسترد کر دیے بلکہ بھارت کو پانی کا رخ موڑنے کی اجازت دے دی عوام کی یاد دہانی کے لیے یہ وہ دور تھا جب بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دیا جارہا تھا اور خارجہ امور کا قلمدان بھی وزیر اعظم میاں نواز شریف کے پاس تھا۔
اسی دوران دریائے سندھ پر بنائے جانے والے متنازعہ پن بجلی کے منصوبے نیموباز گو کے خلاف بھی وزیر اعظم صاحب کے احکامات کے مطابق عالمی عدالت میں جانے سے روک دیا گیاجسکے بعد بھارت نے یہ منصوبہ مکمل کر لیا، یہی نہیں اس دوران ”چٹک” کا منصوبہ بھی پایہ تکمیل کو پہنچ گیا اور اس دور میں بھارت نے دریائے سندھ پر 14 چھوٹے ڈیم اور دو بڑے ڈیم مکمل کر لیے یہی وجہ ہے کہ منگلا ڈیم اکتوبر 2017 سے خالی پڑا ہے جبکہ تربیلا ڈیم بھی اس وقت بارش کا محتاج ہے ، دو سال قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بیان دیا تھاکہ وہ پاکستان کو پانی کی بوند بوند کے لیے محتاج کر دے گا اور وہ اس پر عمل کر رہا ہے بھارت دریائے چناب پر سلال ڈیم اور بگلیہار ڈیم سمیت چھوٹے بڑے 11ڈیم مکمل کر چکا ہے۔
دریائے جہلم پر وولر بیراج اور ربڑ ڈیم سمیت 52ڈیم بنا رہا ہے دریائے چناب پر مزید24ڈیموں کی تعمیر جاری ہے اسی طرح آگے چل کر مزید190ڈیم فزیبلٹی رپورٹس، لوک سبھا اور کابینہ کمیٹی کے پراسس میں ہیں۔ یہ سب کچھ ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کی آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے، لیکن کسی کو اس سے غرض نہیں، کوئی نیا پاکستان بنانے کے زعم میں ہے، کوئی ووٹرز کو عزت دینے کا مطالبہ کر رہا ہے، کوئی مذہب پر سیاست کر رہا ہے تو کوئی محض کرسی کے لیے اس گیم کا حصہ ہے ۔اگر یہ مسئلہ کسی پارٹی کے منشور میں شامل نہیں ہے تو اس کے ذمہ دار ہم ہیں عوام کے ووٹ دینے کے معیار نالیاں پکی کرنا، قیمے والا نان یا نام نہاد نمائشی سکیمیں ہیں، دراصل عوام ذہنی غلام بن چکے ہیں جن کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ان کے سیاسی خداؤں کے تابع ہیں اگر مجھ جیسے کم علم کو یہ حقائق ملکی مستقبل کے لیے فکر مند کرسکتے ہیں تو ہمارے نام نہاد دانشور اور میڈیا ہاؤسز کیوں ان موضوعات پر بات نہیں کرتے؟کیوں کہ ہم بطورِ عوام ان موضوعات پر بات کرنا ہی نہیں چاہتے مجھے سیاستدانوں سے گلہ نہیں کیوں کہ ان کی جائیدادیں پاکستان سے باہر ہیں، خدانخواستہ پاکستان پر کوئی آنچ آئی تو وہ اسے چھوڑ کر باہر بھاگنے میں دیر نہیں کریں گے مجھے شکوہ عام لوگوں سے ہے جنہوں نے یہاں رہنا ہے، خدا وہ دن نہ دکھائے جب پانی کے گھونٹ کے لیے ایک بھائی دوسرے کا گلا کاٹ رہا ہو۔ ۔!!