تحریر : عزیر اکبر اس وقت ہمارے ملک کا تعلیمی نظام ایک عجیب وغریب صور حال سے دوچار ہے ۔ ملک کے لئے اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ملک کے وزیراعظم اور وزیر تعلیم کی ڈگریاں ہی شک کے گھیرے میں ہیں اور ان دونوں کی جانب سے بار بار دی جانے والی صفائی سے عوام مطمئن ہیں اور نہ حزب اختلاف کے لوگ ۔ان دنوں ریاست بہار میں تعلیم کے میدان میں ہونے والی گھپلہ بازیوں کی جس طرح پرت در پرت تہیں کھل رہی ہیں ، وہ یقینی طور پر ان لوگوں کے لئے نہ صرف حیرتناک ہیں ، بلکہ افسوسناک ہیں ، جو ایمانداری اور دیانتداری سے علم کے حصول پر یقین رکھتے ہیں۔ بہار کے تعلیمی مافیاؤں کا تعلیمی گھوٹالہ جس طرح سامنے آیا ہے ، وہ ایک دن کا نہیں ہے ، بلکہ گزشتہ کئی برسوں سے تعلیم کو قعر مزلّت میں ڈبونے اور رسوا کرنے کی ایسی کوششیں جا ری تھیں ۔وقتاََ فوقتاََ میڈیا میں ایسی خبروں کی سرخیاں سامنے آتی ضرور تھیں ۔ لیکن جب حکومت کے لوگ ہی تعلیم کے نام پر لوٹ کھسوٹ میں شامل ہوں ،تو پھر ایسے معاملے دب ہی جاتے ہیں۔
لیکن جب پانی سر کے اوپر سے گزرنے لگا اور ملک وبیرون ممالک میں بہار کی رسوائیاں ہونے لگیں، تب ایسے تعلیمی مافیاؤں پر بہار کے موجودہ وزیراعلیٰ نیتیش کمار نے سخت پنجوں کا استعمال کیا اور جو نتائج سامنے آرہے ہیں ، وہ اس لحاظ سے ناقابل یقین ہیں کہ پیسے کے لئے لوگ اس حد تک اپنے ضمیر اور اپنے ایمان تک کو بیچ دیتے ہیں کہ انھیں نہ تعلیمی لیاقت رکھنے والے معصوم بچوں کی حق تلفی کا خیال آتا ہے نہ ہی اپنی ریاست کی شرمساری کا ۔ایک زمانہ تھا کہ بقول صدر جمہوریہ ہند جناب پرنب مکھرجی بیرون ملک سے لوگ تعلیم حاصل کرنے، بہار کی نالندہ یونیورسٹی ،جس کی عظمت ،اہمیت اور شہرت دور دور تک تھی ، آتے تھے۔ اسی بہار میں گزشتہ سال ویشالی ضلع کے مہنار اسکول میں میٹرک کے امتحان میں ، پولیس اور اساتذہ کی موجودگی میں، نقل کے لئے پرچی پہنچاتے ہوئے پہلی سے چوتھی منزل تک ٹنگے لوگوں کی ایک تصویر شائع ہوئی تھی، جس نے پورے ملک اوربیرون ملک میں ایک ہنگامہ برپا کر دیا تھا۔
ملک گیر سطح پر نیزواشنگٹن پوسٹ اور دوسرے کئی بڑے غیر ملکی اخبارات نے اس تصویر کی اشاعت کے ساتھ ساتھ انڈیا کے تعلیمی معیار پر سوالیہ نشان بھی لگا دیا تھا ۔ اس تصویر کی اشاعت سے بدنامی ضرور ہوئی ، لیکن ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ملک کے تعلیمی نظام و معیار پر بحث و مباحثہ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ تصویر کی بیرون ملک کے اخبارات میں اشاعت سے فوری طور پر مرکزی حکومت کو اس معاملہ میں دخل دینا پڑا اور اس نے حکومت بہار سے جواب طلب کیا ۔ امتحان میں اجتمائی نقل اور اس کی شائع ہونے والی تصویر اور رپورٹ پر حکومت بہار کے وزیر تعلیم نے غیر ذّمہ دارانہ بیان پر دیا تھاکہ نقل روکنا حکومت کے بوتے سے باہر ہے۔ اس بیان پر پٹنہ ہائی کورٹ نے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے ،سخت نوٹس لیا اور کہا کہ ایسے غیر ذمّہ دار وزیر کو وزارت سے سبکدوش ہو جا نا چاہیے۔
High Court
اس وقت وہ نہ صرف وزارت سے بلکہ سیاست سے بھی سبکدوش ہو چکے ہیں تصویر کی اشاعت ، ہائی کورٹ کی پھٹکار اور پورے ملک میں بہار کے تعلیمی نظام پر اٹھنے والے سوال نے وزیر اعلیٰ بہار نیتیش کمار کو بھی سخت رخ اپنانے پر مجبورکر دیااور ان کی ہدایت پر انتظامیہ نے میٹرک کے امتحان میں بڑے پیمانے پر اجتمائی نقل کو روکنے کی کوشش کی ،جس میں انتظامیہ کو کسی حد تک کامیابی بھی ملی۔اس سال کا شائع ہونے والا انٹر کا ریزلٹ بھی اس امر کا غماز ہے کہ اجتمائی نقل پر کسی حد تک قابو پایا گیا ، جس کی وجہ کر کامیاب ہونے والے طلبأ و طالبات کا تناسب کم ہو گیا ۔ ایسے میں تعلیمی نظام کو مزاق بنانے والے مافیا گروہ نے کاپی جانچ اور اس کے بعد کا کھیل اس طرح کھیلا کہ ایسے کالجوں سے ٹاپ کرنے والے اور والی کو اپنے سبجکٹ کا بھی علم نہیں ، پالٹیکل سائنس کو ’پروڈیکل سائنس‘ کہنے والی ٹاپر طالبہ نے تو پالٹیکل سائنس کا علمی تعلق بھی بدل دیا اور کہا کہ یہ اس سبجکٹ میں کھانا بنانے کی تعلیم دی جاتی ہے۔
ایسی ایسے نئی اطلاع کے بعد ہی انٹر میں ٹاپ کرنے والوں کے سلسلے میں حکومت کی آنکھ کھلی اور اب تو جس طرح بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور گھروں و کالجوں میں چھاپہ ماری ہو رہی رہی ہے اور جو حقائق سامنے آ رہے ہیں ، وہ ہوش اڑا دینے والے تو ہیں ہی ہیں ۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ نہ جانے کتنے برسوں سے اس طرح بہت سارے معصوم اور ذہین بچوں اور بچیوں کی حق تلفی کی گئی ، جس کا ازالہ اب ممکن نہیں۔ تعلیمی نظام کی ایسی بدترین صورت حال کی ایسی روایت صرف بہار کی نہیں ہے، بلکہ ملک کی بیشتر ریاستوں میں تقریباََ ایسے ہی حالات ہیں۔
Education
بشن رائے کالج، حاجی پور، اس کالج کے پرنسپل اور مالک بچہ رائے ، بہار بورڈ کے چیئرمین لالکیشور، ان کی اہلیہ اور جدیو سے قانون ساز کونسل کی ممبر اور ایک کالج کی پرنسپل اوشا سنگھ جیسے لوگوں کا مافیا گروہ صرف بہار میں ہی متحرک نہیں ہے بلکہ جھارکھنڈ، اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ جیسی ریاستیں بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہیں۔ ان ریاستوں میں اسکول سے لے کر کالج ، یونیور سٹی اور ریاستی پبلک سروس کمیشن وغیرہ کے امتحانات میں منّا بھائی ، رنجیت ڈان،بچہ رائے،لالکیشور تعلیمی مافیا پوری طرح متحرک ہیں ۔ پچھلے دنوں اتر پردیش پبلک سروس کمیشن کے مقابلہ جاتی امتحان کے سوالات امتحان سے قبل ہی ایک ایک لاکھ روپئے میں فروخت ہورہے تھے۔ اگر یہ سوالات امتحان سے چند گھنٹے قبل واٹس اپ پر نہیں ڈالے جاتے تو شائد کسی کو پتا بھی نہیں چلتا ۔ ایسی سینکڑوں مثالیں آئے دن سامنے آ رہی ہیں۔