تحریر : رانا اعجاز حسین اس وقت دنیا کے بڑے حصے میں جس طرح سے جنگیں اور شورشیں جاری ہیں انہیں دیکھتے ہوئے تیسری عالمی جنگ کی پیشین گوئیاں شروع ہو چکی ہیں! پہلی دو جنگیں بالترتیب 50 ملین اور 70 ملین انسانوں کو نگل گئیں اور خدا کی زمین پر ایسی خوفناک تباہیوں کا موجب بنیں کہ ان کا خیال آتے ہی مخلوق خدا کانپنے لگتی ہے ۔ ان دو جنگوں کا شمار دنیا کی دس عظیم ترین جنگوں میں ہوتا ہے۔ باقی آٹھ جنگیں جن میں چنگیز خان اور ہلاکو خان کی منگول جنگیں اور ان کی عظیم تباہیاں بھی شامل ہیں، ان میں سوویت یونین کی افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ سرفہرست ہے، دنیا کی دس عظیم جنگوں میں اس جنگ کا شمار اہمیت کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے۔ یہ جنگ جو 1979ء سے 1989ء تک مسلسل دس سال لڑی گئی، ایک موقع پر قریب تھا کہ اس کا فیصلہ سوویت یونین کے حق میں ہو جاتا مگر امریکہ کے سٹنگر میزائل نے اس جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ چنانچہ یہ جنگ جس کی پشت پناہی امریکہ کی خاطر پاکستان کر رہا تھا، عرصہ دس سال کے بعد اپنے انجام کو پہنچی تو اس کے بعد شمالی اتحاد کو ناکوں چنے چبوانے والے طالبان کو حق پرست اور دلیر جنگجو قرار دے کر امریکہ نے ان کی پشت تھپکی! اس کے بعد نائن الیون ہو گیا جس نے دنیا کے نقشے پر جنگیں اور تباہیاں تو رقم کی ہی مگر اس نے حق پرستوں کی شناخت بھی تبدیل کر دی اور انہیں شدت پسند اور شر پسند بنا دیا۔
یہ وہ کہانی ہے جسے پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے، چنانچہ اس کی تفصیل دہرانے کے بجائے ہم افغان روس جنگ کے ہیرو ضیاء الحق کے بعد کے دوسرے ملٹری ڈکٹیٹر پرویز مشرف پر آتے ہیں جس نے امریکی دباؤ پر 2001ء میں اس ملک کی بقا، سلامتی اور خودداری بیچ کر بدلے میں اک ایسی جنگ خریدی جس نے 50 ہزار سے زائد سویلین اور فوجی کھا لئے، اربوں کا انفراسٹرکچر برباد کر دیا ملک میں دہشت گردی کی آگ کے شعلے یوں جلا دیئے کہ بجھنے کے بجائے بھڑکتے ہی جا رہے ہیں، حالانکہ پرویز مشرف کی مطلق العنایت کا خاتمہ ہوئے برسوں گزر گئے، درمیان میں ایک عوامی حکومت اپنی مدت اقتدار مکمل کر کے گھر لوٹ چکی، دوسری منتخب عوامی حکومت دورِ اقتدار کے تیسرے برس میں ہے، مگر یہ جنگ اس وقت اک ایسے خطرناک موڑ پر آ چکی ہے جس میں امریکہ تو افغانستان سے جا رہا ہے اور اس کی لگائی ہوئی آگ پاکستان میں جگہ جگہ بھڑک رہی ہے، شمالی وزیرستان میں آپریشن کا امریکی مطالبہ خاصا پراناتھا، جب پرویز مشرف امریکی ایڈ سے جیبیں بھرنے کے بعد ڈو مور کا مطالبہ بسروچشم پورا کر رہا تھا، یہ مطالبہ اس وقت شدید دباؤ کے ساتھ سامنے آیا تھا۔
مگر اس وقت پاکستان آرمی اس کے حق میں تھی اور نہ ہی پاکستانی قوم، اپنے ملک میں اپنے ہی لوگوں سے نبردآزمائی ، جس صبر آزما امتحان کا نام ہے یہ ملک و قوم اس سے گزر کر آپریشن ضربِ عضب تک آئے ہیں اور یہ وہ مقام ہے جب پرائی جنگ کو پاکستان اور پاکستانی عوام کچھ وجوہات کی بنا پر اپنی جنگ مان چکے ہیں۔ آپریشن راہِ راست، آپریشن راہِ نجات اور آپریشن ضربِ عضب۔ ایک ہی دشمن، ایک ہی طاقت، ایک ہی خوفناک عنصر کے خلاف مختلف ادوار میں کی جانے والی فوجی کارروائیاں ہیں پاکستان کی بہادر افواج نے طالبان اور ملک دشمن عناصر سے ملک کو پاک کرنے اور ملکی امن و امان بحال کرنے میں پہلے بھی اپنا خصوصی کردار ادا کیا ہے اور الحمدللہ اب بھی اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں حکومت کو مذاکرات کے طویل اور بے فائدہ دورانئے میں الجھا کر طالبان پچھلے تمام عرصہ میں اپنی طاقت منظم کرتے رہے، دھماکے اور امن پسندی کے دعوے ،سیز فائر اور دہشت گردی کی خوفناک وارداتیں جاری رہیں، یہ وہ عرصہ تھا جس نے قوم کو طالبان کے خلاف ایک محاذ پر اکٹھا کر دیا، حکومت وقت کے صبروتحمل نے اتمامِ حجت کر دیا اور کراچی ایئرپورٹ کی دہشت گردی مذاکرات کے تابوت کا آخری کیل ثابت ہوئی۔
Pakistan Political Parties
حکومت نے سیاسی جماعتوں، پارلیمنٹ اور عوام کو اعتماد میں لے کر آپریشن ضربِ عضب شروع کیا، جس پرعمل کے دوران پاکستان کی بہادر افواج اور عوام نے ناقابل فراموش فربانیاں دی ہیں ، ملک دشمن ظالم عناصر نے جب دیکھا کہ اب وہ ملک میں آگ و خون کا کھیل مذید جاری نہیں رکھ سکتے تو ظالموں نے ردعمل کے طور پر سانحہ اے پی ایس سکول میں ننے معصوم بے گناہ بچوں تک کونشانہ بنا ڈالا۔آج ملک سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے پوری قوم متحد ہوچکی ہے ، شہدا کی قربانیاں رنگ لا رہی ہیں ، ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے مثبت نتائج آنا شروع ہو چکے ہیں، ملک دشمن اور اسلام دشمن غیرملکیوں نے اپنے اپنے ایجنڈے کو پایہ تکمیل پہنچانے اور پاکستان اور اسلام کو بدنام کرنے کا جوکاروبار عرصہ دراز سے شروع کر رکھا تھا، یہ آپریشن ان تمام اسلام دشمن اور ملک دشمن ایجنٹوں کو جڑ سے اکھیڑنے میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے، سوات کی مثال ہمارے سامنے ہے، جسے مولوی فضل اللہ نے خوف کی وادی بنا رکھا تھا، سوات آپریشن کے بعد سبھی شرپسند شمالی وزیرستان میں جمع ہو کر خود کو منظم کر چکے تھے اور وہ وقت دور نہ تھا جب ان کی شرپسندی پاکستان کا رہا سہا امن بھی ختم کردیتی۔
لہٰذا یہ آپریشن وقت کی ضرورت تھا، آج پاکستان میں پائیدار قیام امن کی خاطر پورا ملک افواجِ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے ۔ ہم حالتِ جنگ میں ہیں اور حالتِ جنگ میں اگر فوج دشمنوں کے خلاف مورچہ بند ہو کر نبردآزما ہوتی ہے تو قوم اپنی اپنی جگہ پر رہ کر اپنی ذمہ داریاں ادا کرتی ہے اور اپنی فوج کے لئے آسانیاں پیدا کرتی ہے۔ہم جانتے ہیں طالبان کے خلاف گرینڈ آپریشن سے سارا ملک بالعموم اور بالخصوص خیبرپختونخوا اور کراچی خطرے کی زد پر ہیں، ملک دشمن اس موقع پر کچھ بھی کر سکتے ہیں، ہمیں متحد رہ کردشمن کے مقابلے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ مگر ہو یہ رہا ہے کہ ایک طرف تو پاک فوج، رینجرز اور سکیورٹی فورسز دہشت گرد عناصر کے خلاف برسرپیکار ہے ، تو دوسری جانب سندھ حکومت دہشت گردوں اور ملک دشمن عناصر کے خلاف جاری آپریشن میں رخنہ ڈال رہی ہے، کراچی میں رینجرز کے اختیارات کو محدود کردیا گیا ہے۔
رینجرز پر شرائط کی پابندی عائد کردی گئی ہیں، کرپٹ عناصر کے خلاف اور سرکاری دفاتر میں کسی قسم کی کاروائی سے قبل رینجرز کو چیف سیکرٹری سے اجازت لینا لازمی قرار دیا گیا ہے ۔ ملک کے کرپٹ عناصرکا دفاع کرنا ملکی سالمیت کو خطرے سے دوچار کرنے کے مترادف ہے ، بلاشبہ کرپشن ہی وہ ناسور ہے جس کے باعث ملک میں بد امنی اور لاقانونیت پروان چڑھی ۔ اس نازک وقت میں جب ملک ایک مشکل اور تکلیف دہ حالات سے گزر رہا ہے، کیا ہماری صوبائی حکومتوں اور سیاست دانوں کو اپنی اپنی اناؤں کے پرچم لہرانا زیب دیتا ہے؟ یہ وقت تو ملک و قوم اور اس کے اداروں کے یک جان، یک زبان ہو جانے کا ہے۔پھر یہ غیر ذمہ داری اور نادانی کیوں؟ ملکی سالمیت اور ملک کو بدامنی کے ناسور سے پاک کرنے کے لئے اگر ہم اب بھی متحد نہ ہوں گے تو آخر کب ہوں گے۔
Rana Ijaz Hussain
تحریر : رانا اعجاز حسین ra03009230033@gmail.com رابطہ نمبر0300-9230033