اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے آج یوم استحصالِ کشمیر منایا جا رہا ہے۔
یومِ استحصال کشمیر کے موقع پر صبح 9 بجے ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کی گئی اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک منٹ کے لیے ٹریفک روکا گیا۔
کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کی بھرپور حمایت اور بھارتی اقدام کے خلاف وزیر خارجہ شاہ محمود کی قیادت میں دفتر خارجہ سے ریلی نکالی گئی جو ڈی چوک پہنچی جہاں صدر عارف علوی، وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی ریلی میں شرکت کی۔
صدر عارف علوی نے ریلی سے خطاب میں کہا کہ کہا کہ بھارت کو پیغام ہے کہ جب تک کشمیریوں پر مظالم بند نہیں کریں گے ان سے کوئی بات نہیں کی جائے گی، بھارتی حکومت نے آزادی کے اصولوں کو پامال کیا ہے، پاکستان مقبوضہ کشمیر کو آزاد کراکے رہے گا۔
مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت پر بھارت کے ڈاکے کو دو سال گزرگئے، دو سال پہلے آج ہی کے دن مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت ختم کی تھی اور ریاست کا درجہ چھین لیا تھا، علیحدہ پرچم بھی اتار لیا تھا۔
مودی حکومت نے مقبوضہ جموں کشمیرکو بھارتی یونین کا علاقہ قرار دیا تھا جس کے خلاف کنٹرول لائن کے دونوں جانب یوم استحصال کشمیر منایا جارہا ہے۔
اس موقع پر مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال کی جارہی ہے جب کہ سری نگر کے لال چوک تک مارچ کیا جائے گا اور سیاہ پرچم لہرائے جائیں گے۔
بھارت نے 5 اگست 2019 کو راجیہ سبھا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بل پیش کرنے سے قبل ہی صدارتی حکم نامے کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کو وفاق کے زیرِ انتظام دو حصوں یعنی (UNION TERRITORIES) میں تقسیم کردیا جس کے تحت پہلا حصہ لداخ جبکہ دوسرا جموں اور کشمیر پر مشتمل ہوگا۔
بھارت نے یہ دونوں بل لوک سبھا سے بھی بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کرائے۔
بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر میں خصوصی اختیارات سے متعلق ہے۔
آرٹیکل 370 ریاست مقبوضہ کشمیر کو اپنا آئین بنانے، اسے برقرار رکھنے، اپنا پرچم رکھنے اور دفاع، خارجہ و مواصلات کے علاوہ تمام معاملات میں آزادی دیتا ہے۔
بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ اس دفعہ کے تحت ریاست مقبوضہ کشمیر پر نافذ نہیں کیے جا سکتے۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کسی بھی دوسری ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر کا شہری نہیں بن سکتا اور نہ ہی وادی میں جگہ خرید سکتا ہے۔
بھارت نے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے قبل ہی مقبوضہ کشمیر میں اضافی فوجی دستے تعینات کردیے تھے کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ کشمیری اس اقدام کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی تعداد اس وقت 9 لاکھ کے قریب ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے وادی بھر میں کرفیو نافذ کیا گیا، ٹیلی فون، انٹرنیٹ سروسز بند کی گئی جب کہ کئی بڑے اخبارات کو بھی شائع ہونے سے روکا گیا۔
بھارتی انتظامیہ نے پورے کشمیر کو چھاؤنی میں تبدیل کردیا، 7 اگست کو کشمیری شہریوں نے بھارتی اقدامات کیخلاف احتجاج کیا لیکن قابض بھارتی فوجیوں نے نہتے کشمیریوں پر براہ راست فائرنگ، پیلٹ گنز اور آنسو گیس کی شیلنگ کی، ریاستی جبر و تشدد کے نتیجے میں متعدد کشمیری شہید اور زخمی ہوچکے ہیں۔