وقت کی قربانی

Hypocrisy

Hypocrisy

ملک سے جھوٹ ،منافقت اور قومی اداروں کو بدنام کرنے کی سیاست اب ختم ہوجانی چاہیے بہت ہوچکا ہم نے پاکستان ،پاکستان کے آئین اور پاکستان کے قومی اداروں کو ایک مذاق بنا رکھا ہے جسکا جب دل کرتا ہے منہ اٹھا کر قومی اداروں کے خلاف گند بکنا شروع کردیتا ہے پاکستان کے تمام ادارے محترم ہیں مگر ہمارے انہی سیاستدانوں کی بدولت بہت سے ادارے اب اپنے دائرہ اختیار سے باہر نکل چکے اگر پاکستان کی بقا ہے تو وہ صرف فوج کی وجہ سے ہے اور ہم نے اب اپنا وطیرہ بنا لیا ہے کہ آئے روز کسی نہ کسی بہانے فوج کو ہدف تنقید بنانتے رہیں اور جو لوگ ایسا کررہے ہیں۔

وہ قطعی طور پر پاکستان کے دوست نہیں ہیں بلکہ ہوسکتا ہے کہ وہ کسی بیرونی ایجنڈے پر کام کررہے ہوں ایسے افراد کا محاسبہ ہونا چاہیے خواہ وہ کتنا ہی بڑا سیاستدان کیوں نہ ہو گذشتہ روز جاوید ہاشمی کی طرف سے پاک فوج اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر من گھڑت الزامات لگائے گئے کیا جاوید ہاشمی اپنے سابق باس اور پسندیدہ لیڈر میاں نواز شریف کے کہنے پر تو کسی ایجنڈے پر کام نہیں کررہے تاکہ پاک فوج کو بدنام کیا جاسکے اس سے قبل میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران بھی پاک فوج کو بدنام کرنے کی کوشش کی تھی وہ تو آئی ایس پی آر کی بروقت وضاحت سے وزیر اعظم کے جھوٹ کا پول کھل گیا اس سے قبل بھی حکمرانوں کی طرف سے بار بار جھوٹ بولا گیا مگر کیا مجال ہے کہ کبھی حکمرانوں کی طرف سے جھوٹ پر شرمندگی کا اظہار کیا گیا ہوہمارے حکمرانوں نے آج تک قوم سے سچ نہیں بولا یہی وجہ ہے کہ پاکستان ہر گذرنے والے دن کے ساتھ پسماندگی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔

ہر سیاستدان نے لوٹ مار کے لیے پاکستان میں سیاست کو بطور ڈھال بنا رکھا ہے اور پھر اسی سیاسی لوٹ مار سے دولت اکھٹی کرتے ہیں بیرون ملک سرمایہ کاری کرتے ہیں اور پھر اپنی نسلوں کو باہر بھیج دیتے ہیں جو وقتا فوقتا پاکستان حکمرانی کے لیے آتے رہتے ہیں ہمارے آج تک کے جتنے حکمران گذرے ہیں سبھی نے جب اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تھا اس وقت انکی حالت قابل رحم ہوتی تھی مگر جب وہ حکومتوں کے مزے لوٹ چکے ہوتے ہیں تو ملکی خزانہ بھی لوٹ کر اپنی تجوریاں بھر چکے ہوتے ہیں اور پاکستان کی عوام غریب سے غریب تر ہوتی جارہی ہے آج باغی کے نام سے پہچانے جانے والے جاوید ہاشمی نے بطور وزیر صحت کتنے مالی فائدے اٹھائے اور پھر اپنے خاندان کو نواز حکومت سے کتنا نوازا یہ سب ہی جانتے ہیں۔

خاص کر مسلم لیگ ن کے ورکر بہت اچھی طرح جانتے ہیں گذشتہ روز جاوید ہاشمی کی طرف سے پاکستان کی فوج اور سپریم کورٹ پر الزامات کی بوچھاڑ کردی گئی یار لوگ بتاتے ہیں کہ جاوید ہاشمی اب مسلم لیگ ن میں جانے کے لیے پرطول رہے ہیں اور اسی لیے وہ میاں نواز شریف کے ایجنڈے پر کا م کررہے ہیں کیا اسی جمہوریت کے لیے عوام نے قربانیاں دی تھی کہ ملک پر صنعتکار اور جاگیر دار قابض ہوجائیں اسلام آباد میدان جنگ بنا ہوا ہے پاکستان ٹیلی ویژن پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جمہوریت کی علامت پارلیمنٹ کے باہر موجودہ نظام کے خلاف احتجاج کرنے والے دھرنہ دیے بیٹھے ہیں حکومت ہر مرحلے میں پسپائی اختیار کیے ہوئے ہے منہاج القران کے 14کارکنان کو بے گناہ شہید کیے جانے کے خلاف ایف آئی آر درج نہ کی گئی تو احتجاج کو سلسلہ شروع ہوا حکومت نے ہٹ دھرمی دکھائی مقدمہ درج نہ کیا تومعاملات حکومت کے اختیارسے باہر ہو گئے۔

بلا آخر ایف آئی آر درج کرلی گئی مگر وہ بھی نامکمل اسکے بعد احتجاجیوں نے اپنا کام تیز کیا تو پھر حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی اور وہی ایف آئی آ درج کردی گئی جو پاکستان عوامی تحریک والے چاہتے تھے مگر اس دوران جو مزید انسانی جانیں ضائع ہوگئی اسکی ذمہ داری کس کے سر جائے گی کیا اب ایک اور ایف آئی آر درج کروانے کے لیے مزید جانوں کی قربانی دینا پڑے گی یا حکومت اسی سے سبق سیکھتے ہوئے اپنے اوپر ایک اور ایف آئی درج کرلے گی اگر تو ہم نے اسی گلے سڑے نظام کے ساتھ ہی پاکستان کو آگے لیکر جانا ہے تو یہ بہت مشکل ہوگا بلکہ ناممکن ہے اس موجودہ جمہوری نظام سے تو لوگوں کو انصاف ملے گا نہ ہے۔

خوشحالی ملے گی بلکہ جمہوریت اور اس نظام کو بچانے والے تمام مفاد پرست اکٹھے ہو کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے رہیں گے اس لیے ضروری ہے کہ ہم ایسی جمہوریت اور ایسے نظام سے جان چھڑوا لیں جس کی وجہ سے ملک میں غربت ہی غربت ہو بیمار کے پاس دوائی کے پیسے نہ ہوں اور بھوکے کے پاس روٹی کا سامان نہ ہو ایسی جمہوریت میں اگر ایک زرداری جائیگا تو اسی نظام کو بچانے کے لیے دوسرا نواز شریف آجائیگا غریب مزدور ،کسان اورغلام ووٹر یونہی اپنے مسائل کے حل کے لیے سڑکو ں پر آکر دھرنے دیتے رہیں گے کیا کسی جمہوری ملک میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک منتخب وزیر اعظم پوری قوم کے سامنے جھوٹ بول جائے اور اسے پوچھنے والا کوئی نہ بلکہ اسکے نمک خوار اسکی ہر غلط بات کو بھی سچ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں کیا جمہوری اور مہذب معاشرے میں ایسا ہی ہوتا ہے اگر ایسا نہیں ہے۔

Democracy

Democracy

تو پھر ہم سب ملکر جمہوریت کو بچانے کی کوشش نہیں کررہے بلکہ جھوٹ کے اس نظام اور راستے کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں جو پاکستان کی تباہی کی طرف جاتا ہے کیونکہ اس وقت جمہوریت کے نام پر جو لوگ اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں وہ سرمایہ دار اور جاگیر دار ہیں جنہوں نے ہمیشہ پاکستان میں لوٹ مار کے نظام کو فروغ دیا اور جو انکے اس وقت سپورٹرز ہیں وہ بھی انہی کے حصہ دار ہیں کیونکہ لوٹ مار کا کچھ نہ کچھ حصہ انہیں بھی پہنچایا جارہا ہے ورنہ پاکستان میں تو حق دار کو اپنا حق لینے کے لیے بھی خود کو ختم کرنا پڑتا اس کے بعد کہیں جاکر قانون حرکت میں آتا ہے۔

قانون بھی وہ حرکت میں آتا ہے جسے ہر حاکم وقت نے اپنے گھر کی لونڈی بنائے رکھا جب چاہا اور جہاں چاہا قانون کا منہ کالا کردیا اور آج تک ان سے پوچھنے والا بھی کوئی سامنے نہیں آیا کیونکہ کسی نہ کسی طریقے سے ہر پوچھنے والے کو حکمرانوں نے لالچ اور فریب کے اندھے کنویں میں دھکیل رکھا ہے اگر آج پاکستان کا نظام درست کردیا جائے تو آنے والے دنوں میں پاکستان پاکستانیوں کے لیے جنت بن سکتا ہے مگر اس کے لیے ابھی ایک نسل کو قربانی دینا ہو گی کیونکہ بے وفائی ،جھوٹ ،فریب اور رشوت کے جس کلچر کی فصل کو ہم پروان چڑھا چکے ہیں اس کو کاٹنے میں ابھی وقت لگے ایک وہ نسل تھی جنہوں نے پاکستان بنتے دیکھا تھا۔

ہم وہ ہیں جنہوں نے پاکستان اجڑتے دیکھا اور آنے والی وہ نسل ہوگی جو پاکستان کو دوبارہ بنتا دیکھے گی اور اس وقت تک ہمارے یہ لٹیرے حکمران جا چکے ہونگے اور انکی نسلیں پاکستان سے باہر لوٹ مار کے پیسے سے عیاشیوں میں مصروف ہوگی ہوسکتا ہے ہم اس دور میں نہ ہو مگر ہماری جدوجہد کو یاد رکھا جائیگا کہ ہم نے اجڑتے اور ڈوبتے ہوئے پاکستان کو بچانے میں اپنا کردار ادا کیا تھااور جو آج پاکستان کو بچانے کی خاطر باہر نہیں آئے گا وہ بھی اتنا ہی مجرم ہوگا جتنے ہمارے حکمران ہونگے کیونکہ برائی کا ساتھ دینے والا بھی اتنا ہی برا ہوتا ہے۔

جتنا برائی کرنے والا اللہ تعالی نے ہمیں سنبھلنے کا ایک موقعہ دیا ہے اگر اس بار بھی ہم خاموشی سے جمہوریت کو بچانے کے لیے تیار کیا ہوا ڈرامہ یونہی دیکھتے رہے تو پھر آنے والے نسلیں ہمیں معاف نہیں کرینگی کیونکہ ہم نے پاکستان بناتے وقت کوئی قربانی نہیں دی اب اس کو بچانے کے لیے ہی کچھ نہ کچھ تو قربان کردیں اور کچھ نہیں تو صرف اپنے وقت کی ہی قربانی دے دیں۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر۔روہیل اکبر
03466444144