تحریر: محسن شیخ یزید کی حکومت ناجائز تھی۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث ہے کہ ظالم حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا جہاد ہے، بر حق ہے، جب آپ سچائی اور اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ تو آپ یہ فکر نہیں کریں کہ آپ کے ساتھ کتنے لوگ ہیں، اور نہ یہ سوچے کہ اس کے نتائج کیا ہونگے، بلا وجہ تو کوئی بھی جمہوریت کو خطرے میں نہیں ڈالتا، سادہ سی سو باتوں کی ایک بات یہ ہماری قوم کا حق ہے کہ اس کو اپنے نمائندے صاف شفاف اور ایماندارانہ طریقے سے چننے کا حق دیا جائے، اگر قوم کو شک ہیں تو ایک ایک ووٹ قابل تصدیق ہونا چاہیے، ورنہ یہ چور جابر اور لٹیرے نا اہل حکمران کبھی بھی اس ملک اور عوام کی جان نہیں چھوڑیں گے، شکر ہے کہ نواسہ رسول حضرت امام حسین آج کے زمانے میں نہیں ہیں، ورنہ لوگ کہتے کہ یزید کی حکومت تسلیم کرلیں، جمہوریت کو خطرہ ہے، ملک کو خطرہ ہے، آئین کو خطرہ ہے، حضرت امام حسین نے جان قربان کردی، مگر جابر ظالم یزید کی حکومت تسلیم نہیں کیں،، ہم کسی کو کسی سے نہیں ملا رہے، نواسہ رسول کی اس مثال سے واضح ہوجاتا ہے کہ حق اور سچ کے لیے ڈٹ جانا کتنا اہم ہے،، یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان بد ترین سیاسی بحران کا شکار ہیں، اس ظلم کے خلاف سڑکوں پر بیٹھی عوام کو چالیس روز سے زاہد ہوگے، مگر نتیجہ ابھی تک کچھ نہیں نکلا، ان 40 دنوں میں نہ حکومت ٹس سے مس ہوئی، نہ سڑکوں پر بیٹھی عوام اپنے گھروں کو جانے کے لیے تیار ہیں۔
اس سیاسی بحران سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ عوام یہ جمہوریت یہ نظام اور یہ حکمران نہیں چاہتی، اب عوام اپنے حقوق چاہتی ہیں، اب عوام کو فیصلہ کرنا ہے، ملک کی تقدیر بدلنی ہے، اب عوام ظالم اور جابر حکمرانوں کے خلاف کھڑی ہوچکی ہیں۔ اب قوم بیدار ہوچکی ہیں، اب عوام ملک میں قیام پاکستان سے لے کر اب تک قائم اس بوسیدہ جمہوری خاندانی نظام کا خاتمہ ہونا چاہیے، اب عوام پھر سے بابائے قوم قائداعظم کا پاکستان چاہتی ہیں، اب عوام اپنی اور ملک کی خوشحالی چاہتی ہیں، اصل جمہوریت چاہتی ہیں، اپنے حقوق چاہتی ہیں اپنے جان و مال کا تحفظ چاہتی ہیں، عدل و انصاف چاہتی ہیں، امن و امان چاہتی ہیں، سلامتی چاہتی ہیں، بے روزگار نوجوان روزگارچاہتے ہیں، تعلیم سے محروم بچے علم کا حصول چاہتے ہیں، حوا کی بیٹی اپنی عزت و آبرو کی حفاظت چاہتی ہیں، اب یہ عوام ہر ظلم و ستم سے نجات چاہتی ہیں۔
Imran Khan
ملک میں جاری سیاسی بحران کو ایک ماہ سے اوپر ہوچکے ہیں، سیاسی بحران جتنا طویل ہورہا ہے، ہزار ہا اندیشے جنم لے رہے ہیں، ملک سیلاب جیسی آفات سے پہلے ہی دوچار ہیں، اوپر سے جابر ظالم اور نا اہل حکمرانوں کا راج، ملک کے چاروں صوبوں کے شہروں گائوں دیہاتوں ہر سو گونجتے گو نواز گو کے نعروں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عوام ایسے نا اہل حکمرانوں سے نجات چاہتی ہیں، گو نواز گو کے نعرے نا صرف پاکستان میں بلکہ لندن سعودی عرب اور اب وزیراعظم کے دورے امریکہ کے دوران بھی بلند ہونے والے ہیں، یہ تمام صورتحال ملک کے حالات کو ابتری کی طرف دھکیل رہے ہیں، ملک میں خون خرابہ ہوتا نظر آرہا ہے، اس خدشے کا اظہار جناب الطاف حسین نے بھی کیا تھا،چند روز قبل تاہم اللہ کے فضل سے سب خیرو عافیت رہا، عمران خان نے کراچی میں شاندار جلسہ کیا جناب الطاف حسین نے عمران خان کو مبارکباد دی کراچی اپنے دامن میں سب کو جگہ دیتا ہے، کراچی کا دل بہت بڑا ہے، کراچی کی دھرتی ماں وہ ہستی ہے، جہاں پیار کے دریا بہتے ہیں، چاہتوں کا کارواں روا دواں ہیں، کراچی ماں اپنے دامن میں سب کو سمیٹ لیتی ہیں، کراچی کی عوام سب سے زیادہ شعور رکھتی ہیں،، کراچی کی عوام کو سب سے زیادہ شعور فراہم جس سیاسی جماعت نے دیا ہے، وہ متحدہ قومی مومنٹ ہیں، آج متحدہ قومی موومنٹ ہی کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہیں، مجھے عمران خان کی کچھ باتوں سے اختلاف بھی ہے، عمران خان نے کراچی میں کامیاب جلسہ کیا تقریریں کیں بھڑکیں ماریں اور واپس دھرنے میں چلے گے، مگر بابائے قوم بانی پاکستان قائداعظم کے مزار پر حاضری نہیں دیں، حالانکہ یہ جلسہ مزار قائد کے احاطے میں ہی کیا گیا، یہ بڑی افسوس ناک بات ہے۔
آج اگر متحدہ قومی موومنٹ کے قائد تحریک جناب الطاف حسین کراچی آجائے تو کیا وہ سب سے پہلے نائین زیرو جائے گے، ہر گز نہیں وہ مزار قائد جائے گے، پھر نائین زیرو جائے گے، بانی پاکستان کو فراموش کرنا سمجھ سے بالا تر ہے، آج یہ جس ملک کے لیڈر ہیں، یہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی انتھک محنت کا ثمر ہیں، یہ عطائے خداوندی ہے، قائد کی بدولت ہی آج ہم اس پاک وطن کی آزاد فضائوں میں جی رہے ہیں، ورنہ آج ہم غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوتے، آج وطن عزیز جن حالات اور سیاسی بحران کا شکار ہیں، اس پر یقینن میرے قائد کی روح تڑپ رہی ہیں، آج تمام سیاسی سوداگرو نے بانی پاکستان کے اصولوں کو فراموش کرکے اپنے ذاتی مفاد کے اصول بنا لیے ہیں، اور ان اصولوں پر عمل پیرا ہیں، اور مزید اپنے ذاتی مفاد کے اصول کے لیے نت نئی ترامیم کررہے ہیں، آج ایک طرف ملک میں سیاسی بحران ہے، تو دوسری طرف سیلاب کی تباہی تیسری طرف ملک میں تبدیلی کی لہر کے لیے عوام سڑکوں پر بیٹھی ہیں،چوتھی طرف ملک میں نئے صوبے بنانے کی بازگشت ہورہی ہیں۔
Altaf Hussain
نئے صوبے انتظامی بنیادوں پر بنائے جائے، لسانی بنیاد پر نہیں، اور جو سیاسی سودا گر یہ بیان بازیاں کررہے ہیں،کہ نئے صوبوں کے قیام سے ملک تقسیم ہوجائے گا، خدا راہ وہ ایسی باتیں نہ کریں ایسا کچھ نہیں ہوگا، نئے صوبوں کے قیام سے ملک مضبوط ہوگا،عوام کو زیادہ سے زیادہ حقوق اور شناخت ملے گی، آج سندھ سندھیوں کے لیے بلوچستان بلوچوں کے لیے خیبرپختنخواں پشتو کے لیے اور پنجاب پنجابیوں کے لیے ہیں، باقی سرائیکیوں کے لیے ہزارہ والوں کے لیے اور مہاجروں کے لیے کیا ہے، ان قوموں کو حقوق شناخت کیوں نہیں دی جاتی، ان قوموں کے لیے ہمیشہ سے کوٹہ مقرر کیوں کیے جاتے ہیں، ہمیشہ ہی سے ان کے ساتھ نا انصافیاں کیوں کی جاتی ہیں، کیا یہ قوم اس دھرتی ماں کی اولاديں نہیں ہیں، حالانکہ ان قوموں نے اس دھرتی ماں کے لیے جس قدر قربانیاں دیں ہیں ایسے تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آج ہزارہ قوم سرائیکی قوم اپنے حقوق کے لیے آوازیں بلند کررہے ہیں، ہزارہ اور سرائیکی صوبے کی سب سے پہلے متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے حمایت کیں، آج مخالفین بھی نئے صوبوں کے مزید قیام کی حمایت کر رہے ہیں، نئے صوبوں کے قیام سے سب قومیت کو یکساں یکجا حقوق ملے گے، کوئی قومیت احساس محرومی کا شکار نہیں ہوگی، نئے صوبوں کا قیام ملک کی ترقی اور ملکی استحکام کی ضمانت ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ سیاسی بحران کب حل ہوتا ہے، اور کیسے حل ہو گا، ابھی اس پر کچھ کہنا مناسب نہیں ہے۔