تحریر : ایم ایم علی پاکستان ایک ایسا تحفہ خداوندی ہے جو کہ ہر قسم کے قدرتی وسائل سے مالامال ہے ہم اس تحفے کی شایان شان اللہ کا شکرادا کرنے سے قاصر رہے ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہونے کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل سے بھی مالامال ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم کی وفات کے بعد ملک پاکستان میں ،نیک صالح ،باکردار ،صاحب بصیرت اور محب وطن قیادت کا فقدان نظر آیا ہے ، اور ملک کو صیح معنوں میں ایسی قیادت میسر نا آسکی جو اس ملک کے قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کا صحیح معنوں میں ادراک کرتے ہوئے اس سمت میں اس ملک کی ترقی کے معیار کا تعین کر کے اس کو دنیا کے ترقی یا فتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتی بدقسمتی سے یہ ملک اپنے ہی وسائل اپنے ہی شہریوں کیلئے استعمال کرنے کی صلاحیت سے محروم رہا۔ ہمارا ملک بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور اس کی بنیادی اکائی زراعت ہے 70فیصد زائد لوگ اس پیشہ سے براہ راست منسلک ہیں۔ملک کاکسان اس وقت سب سے زیادہ بدحالی کا شکار نظر آتا ہے بلکہ سڑکوں پرآئے روز سراپا احتجاج بن کر اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کے خلاف آواز اُٹھاتا ہے اس ملک کا کسان جسطرح سے اس ملک کی خدمت کافریضہ سر انجام دے سکتا تھا اور اس ملک کو غلے میں خود کفیل بنا سکتا تھا بلکہ وافر مقدار میں غلہ پیدا کر کے بیروں ملک درآمد کر کے زرمبادلہ کمایا جاسکتا تھا۔
آج خود زبوں حالی کا شکار ہے زراعت کے شعبے میں خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ۔اس مالی سال کے بجٹ میں حکومت وقت نے کسانوں کیلئے کئی پیکجز کا اعلان کیا ہے مگر کسانوں کا کہنا ہے کہ یہ ناکافی ہیں۔ اللہ تعالی نے اس ملک کو چار موسم ،پانچ دریا، زرعی زمینیں ،پہاڑ ،ریگستان ،سبزہ ،خوبصورت قدرتی نظاروں سمیت ہرنعمت سے نوازا ہے،صرف قدرتی خوبصورتی کافی نہیں ہوتی بلکہ ملکوں اور علاقوں کو انسان کی انتھک محنت بھی درکار ہوتی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ جب تک قدرت اور انسان کے درمیان مل جُل کرکام کرنے کا تعلق پیدا نہیں ہوتا اس وقت تک چیزیں مکمل نہیں ہوتیں بیج کو لیجئے اللہ تعالی نے بیج پیدا کیا مٹی ہوا اور پانی بھی اللہ نے پیدا کئے اور جب تک انسان اس بیج مٹی ہوا اور پانی کو کھیت کی شکل نہیں دیتا انسان اناج میں خود کفیل نہیں ہوتا جس انسان نے اپنی اس ذمہ داری کو محسوس کر لیا وہ انسان اور خطہ خوشحالی سے مزین ہوگیا ،اس کا مقدر بدل گیا مگر انسانوں کے جس گرو ہ نے سستی اور تاخیر کا مظاہرہ کیا وہ گروہ اور ملک ترقی سے محروم ہو گیا۔
تاریخ کا سب سے بڑا سچ ہے پانی اللہ تعالی عنایت کرتا ہے مگر اس پانی کوڈیم میں بدلنا اس کی نہریں بنانا اور نہروں کو کھیتوں اور آبادیوں تک پہنچانا انسان کاکام ہوتا ہے موسم ،ماحول اور حالات بھی اللہ تعالی پیدا فرماتا ہے لیکن ان حالات اور اس ماحول سمیت موسموں کو اپنے لئے کارآمد بنانا انسان کا کام ہوتا ہے ،زمین کے پیٹ میں سونا ،چاندی ،لوہا ،تیل اور دیگر قدرتی جواہرات اللہ نے پیدا کئے ہیں مگر ان کو نکال کر سونے چاندی کے زیورات بنانا لوہے سے کارخانے بنانا ،تیل سے توانائی بنانا ،دیگر جواہرات سے منفت حاصل کرنا انسانوں کا کام ہے۔ چین اورملائشیا میں ایک مقولہ زبان زد عام ہے کہ ایک بھوکے کو ایک مچھلی دے دیں تو اس کا ایک دن آرام سے گذر جائے گا لیکن اگر آپ اسے مچھلی پکڑنے کی کنڈی دے دیں تو وہ عمر بھر کیلئے خود کفیل ہوجائے گا۔
Loans
کوئی قوم قرض لے کر امیر نہیں ہوسکتی کیونکہ قرض اس کی خودی کو ختم کر دیتا اس کا وقار دائو پر لگا دیتا ہے اس کی رائے سلب کر دیتا ہے حتی کہ اس کے ذہن کو غلام بنا کر رکھ دیتا ہے جس کی وجہ سے اس کی سوچ کا دائرہ کار محدود ہو جاتا ہے جبکہ اپنے وسائل پر انحصار اس کی عزت نفس کی بحالی کا موجب بنتا ہے اس کو محنت کرنے کے گُر سکھاتاہے اس کی سوچ میں پختگی لاتا ہے اور اس کو آگے بڑھنے کی لگن دیتا ہے تعلیم کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا کیونکہ قوم میں شعور اور اگہی آئے تو آگے بڑھے گی آج سے ہم اپنے ملک کی تعلیم پر توجہ دیں اپنے GDPکا حصہ تعلیم کیلئے بڑھائیں دیہاتی بچوں کو سکالر شپ دے کر شہروں کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لائیں دیہاتوں میں ہائر سیکنڈری سکولز کا جال بچھائیں سرکاری خرچ پر باصلاحیت نوجونوں کو امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں داخلے دلوائیں اور ہمارے جو اعلی تعلیم یافتہ نوجوان امریکہ اور یورپ میں پُرکشش مراعات کے عوض نوکریاں کر رہے ہیں ان کو یہ مراعات دے کر واپس ملک میں لائیں اور ان کی صلاحتیوں سے استفادہ حاصل کرنے کی ٹھان لیں تو پھر دیکھیں ملک میں کیسی انقلابی تبدیلی آتی ہے نوجونوں کا اعتماد کیسے بحال ہوتا ہے اور ملک کیسے ترقی کرتا ہے اور ایسے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے کہ نہ روکنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
آج بھی ہم اپنے ملک کے قدرتی وسائل کو منصفانہ طور پر استعمال میں لے آئیں بلوچستان سے سونا اور تانبا نکالیں ،خیبر پختونخواہ اور شمالی علاقہ جات کے تفریحی مقامات کوسیاہت کی انڈسٹری میں تبدیل کر دیں اپنے ریگستانوں سے تیل اور قدرتی گیس کو نکال کر منفت بخش بنائیں اپنے ضائع ہونے والے پانی کے ذخائر قابل استعمال بنا دیں ،زراعت کو منافع بخش صنعت کا درجہ دے کر اس کی ترقی پر وسائل خرچ کریں اپنے کسانوں کو عزت دے کر خوشحالی کی شاہراہ پر ڈال دیں تو پھر دیکھیں پاکستان آگے کیسے نہیں بڑھتا اپنے ملک میں صنعتوں کا جال بچھا دیں ٹیکسٹائل شعبے کو دنیا کااعلی ترین ترقی یافتہ شعبہ بنا دیں تجارت جیسے پیغمبری شعبے کو اپنا لیں اپنی یونیورسٹیوں سے زرعی اور صنعتی سائنسدانوں کو پیدا کرنا شروع کر دیںتو پھر دیکھیں ملک کیسے آگے نہیں بڑھتا۔
ایک مغربی مفکر کا قول ہے کہ ٹیلنٹ ہمیشہ شہروں سے 20/25میل دور پیدا ہوتا ہے کے مصداق ہم جب تک محروم طبقوں کو مرکزی دھارے میں داخل نہیں کریں گے ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کا خواب ادھورا رہے گا ہمارے ملک کا اصل ٹیلنٹ سہولتوں سے محروم علاقوں میں چھپا ہو تا ہے جس کو تلاش کرنے کیلئے ہم نے کبھی جستجو نہیں کی محروم علاقوں اور محروم طبقوں کو برابری کی بنیاد پر قومی دھارے میں شامل کر دیا جائے تو ان کی محنت اور کاوشوں سے ترقی کی راہیں مل جائیں گی۔ اللہ کے فضل و کرم سے اس ملک میں قدرتی وسائل کی فروانی سمیت افرادی قوت اور ٹیلنٹ کی بہتات ہے مگر کمی صرف ایک بات کی ہے کہ اس ملک کو نیک صالح ،باکردار ،صاحب بصیرت اور محب وطن قیادت درکار ہے جو اس ملک کو نیک نیتی کے ہتھیار سے لیس ہوکر ترقی کی شاہراہ پر ڈال سکتی ہے اور یہ ملک ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں فخر کے ساتھ کھڑا ہو کر اپنا مقام بنا سکتا ہے یہ ملک عطیہ خدا وندی ہے یہ نظریات اور اساس کی بنیاد پر قائم ہوا ہے اور قیامت تک قائم رہے گا ،انشااللہ۔