تحریر : حاجی زاہد حسین اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وطن عزیز کسی بڑے انتشار و تباہی سے بچ گیاورنہ یہ مذہبی بحران پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا۔ دہشت گردی کا عذاب سیاسی انتشار الگ اوپر سے یہ ہمارے مذہب بے زار نااہل حکمرانوں کا اپنے بیرونی آقائوں کو خوش کرنے اپنی کرسیوں کو اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے جان بوجھ کر یہ بحران پیدا کرنا قیامت کا منظر پیش کرنے والا تھا۔ مگر اللہ نے ہمارے ملک کو اس امکانی بحران سے محفوظ رکھا بچا لیا۔ قارئین ہمارے پاکستان اور اسلام دشمنوں نے بہت پہلے سے اس کی منصوبہ بندی شروع کر رکھی تھی۔ بہت پہلے انہوں نے قضاء اور حدود کے قوانین ختم کرانے کی ڈیمانڈ کی پھر حقوق نسوا ں بل پاس کرانے کی ترغیب دی گھر گھر جھگڑے اور فساد اسلامی اجتماعی فیملی سسٹم کو تباہ کرنے کی بھرپور کوشش کی ۔ مگر اللہ بھلا کرے ہمارے اسمبلی میں پہنچے چند علماء حق نے ان کے ارادوں پر پانی پھیرا اور اب توہین رسالت اور ختم نبوت جو کہ ہمارے ایمان اور اسلام کے بنیادی جز ہیں کوختم کرانے اور کافر اور مشرک بے دین طبقے کو اسلام کا لبادہ اوڑھاکر ہم پر مسلط کرنے کی ٹھانی مگر عاشق رسول اہل پاکستان اور علماء نے اسمبلی کے اندر اور باہر پھر اس سازش کو ناکام کرادیا ۔ اور واپس اپنی اصلی حالت میں ان قوانین کو بحال کروایا۔
علماء اہل سنت کے ایک طبقے نے تو سڑکوں پر آکر تین ہفتے مسلسل احتجاج کی صورت میں بھی حکمران طبقے اور سازشیوں کی اس سازش کو ناکام بنادیا۔ مگر بدقسمتی سے اہل علم لوگوں کا یہ احتجاج پر امن رہنے کے بجائے پر تشدد صورت اختیار کر گیا۔ عوام علاقہ کی مشکلات کے ساتھ جلائو گھیرائو حتی کہ کئی قیمتی جانیں گنوانے کا موجب بھی بنا۔ اس سے بھی بڑھی بدقسمتی کہ تمام مذہبی جماعتوں فرقوں کے اجتماعی احتجاج کے بجائے صرف ایک فرقے کی طرف سے دھرنا دیا گیا۔ عوام کی نظروں میں یہ انفرادی شو تھا۔ جس میں مار دھاڑ گھیرائو جلائو کا عنصر بھی شامل حال رہا۔ ہمیں شرمندگی اس وقت اٹھانی پڑی جب مولوی خادم حسین قادری پیروکار عوام کی ملکیتی گاڑیاں موٹر سائیکل اور دیگر قیمتی اشیاء کو آگ کی نظر کر رہے تھے تب ایک من چلے نے کہاکہ یہ لوگ یہ عاشق رسول غریب عوام کا مال جلا کر جنت کی چابی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اہل علم لوگوں کا یہ طرز عمل کبھی بھی نہیں رہا ۔ اہل علم اور عاشق رسول تو عوام کے مال کی جان کی حفاظت کرتے ہیں۔ فساد نہیں امن قائم کرتے ہیں۔
بڑھکیں نہیں مارتے ۔ دعوت و تبلیغ کرتے ہیں۔ امن کو پسند شہریوں کو معاف اور درگزر کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ نہ کہ فساد فی الارض برپا کرتے ہیں۔ ورنہ علمائے حق اور علماء سو میں دین پسندوں اور دین بیزار لوگوں میںفرق کیا رہ جاتا ہے۔ جہاں تک اپنے بگڑے ہوئے ہمارے اقتدار پرست لبرل حکمرانوں کو راہ راست لانے کے او ر بہت سے طریقے ہیں عجب یہ تھا کہ فیض آباد کے پیر طریقت کا طرز احتجاج اور لاہور کے گدی نشینوں کا طرز عمل اور رہا ۔نواز شریف اور عمران خان کی طرح دھرنوں جلسوں میں گالی گلوچ اور ایک دوسرے پر چاند ملوی ۔ ان عاشق رسول نے بھی جاری و ساری رکھی اور تو اور یومیہ انکا اجرت کی صورت میں اکیس کروڑ روپے اکیس دنوں کی وصولی کا چرچا بھی زبان زد عام رہا حاصل کار اکیس دنوں کی محنت صرف و صرف ایک وزیر قانون کا استفی صرف ایک قربانی ۔ جبکہ وہ اپنے گناہ بے لذت سے پہلے ہی توبہ تائب ہو چکے تھے۔
جب کہ باقی تمام وزراء مملکت بھی ایک آواز میں لبیک یا رسول اللہ اور لا نبی ء بعدہ کا وظیفہ بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔ احتجاج کا مزہ تب آتا کہ ان ایام دھرنا میں ان احتجاج کے دنوںمیں نو ستاروں جیسے سابقوں الاولون قائدین علماء کی طرح سب مذہبی پاکستانی جماعتیں جن میں بریلوی اور شیعہ مکتبہ فکر بھی ہوتے۔ دیو بندی اہل حدیث بھی ساتھ کھڑے ہوتے تب۔ دشمنان اسلام اور پاکستان اور انکے کاسہ لیس ہمارے پٹھوں حکمرانوں سیاستدانوں کو ایک واضح پیغام دیتے کہ خبر دار ہمارا پاکستان نہ تو شام ہے نہ عراق ہم آقا علیہ السلام کی عزت و ناموس پر ایک جان تو کیا لاکھوں کروڑوں جانوں کو ہاتھوں میں لئے بیٹھے ہیں۔ کٹ مرنے کے لئے تیار ہیں۔ مگر نہیں یہاں تو ہر کوئی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنائے پھرتا ہے۔ اپنے اپنے نمبر سکور کرنے کے چکر میں ہیں۔ ذاتی پسند و ناپسند یاد رکھیں ۔ آقا علیہ السلام سے عاشقی کا ٹھیکہ صرف ہمارے ان علماء نے ہی نہیں اٹھا رکھا یہاں پاکستان کا بچہ بچہ عاشق رسول ہے۔ خدانخواستہ یہ امکانی آگ سارے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی تو العیاز باللہ نہ ہم ہوتے نہ ہمارا وطن عزیز بچ ہی پاتا ۔ جہاں پہلے ہی سے بلوچستان پختونستان اور سندھو دیش کے نعرے لگائے جا رہے ہیں ہمارا دشمن چاروں اطراف بھی اسی چکر میں ہے مگر اللہ کا شکر ہے کہ دشمنوں کی یہ سازش ناکام ہوئی اور مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں دھرنا کے شرکاء بعافیت اپنے گھروں کو لوٹے اور ساتھ ساتھ قانون ختم نبوت اور حلف نامہ واپس اپنی اصل حالت میں بحال ہوا قارئین ہم اسمبلی میں موجود جمعیت علماء اسلام کے قائدین علماء کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے حکمرانوں اور حکمران جماعت کو آڑے ہاتھوں لیا خصوصا جمعیت کے سینئر حافظ حمداللہ جو دونوں ایوانوں میں شیر کی طرح گونجتے رہے۔ اور پر امن طور اپنی کامیاب حکمت عملی سے قانون ناموس رسالت اور حلف نامے کو واپس اپنی اصل حالت میں بحال ہونے کرانے میں کامیاب ہوئے اس سے قبل بھی اسمبلی میں موجود ان علمائے حق نے اور خصوصا قائد جمعیت مولنا فضل الرحمن نے اے پی سی کا اجلاس بلا کر حکومت کی انتخابی اصلاحات کی آڑ میں مسلم غیر مسلم ووٹر لسٹوں کو گڑ مڑ کرنے کو چیلنج کر کے انہیں علیحدہ کرانے کے لئے حکمران جماعت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔
ہم ان سب علماء کو ایسی پر امن کوششوں کاوشوں پر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں نجانے ہماری یہ بد بخت حکومت ہر بدلتے موسم میں کیوں نت نئے پنگے لیتی ہے جس سے عوام میںبے چینی افراتفری اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں موجود چند شرعی اسلامی قوانین جن میں 62اور 63بھی شامل ہیں کو بیرونی آقائوں کی خوشنودی کے لیے نکال باہر کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔پاکستانی عوام کبھی بھی ایسی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دے گی اس خدادا داسلامی ریاست کی بقاء و سلامتی صرف وصرف نظام مصطفےٰ اور قوانین شرعیہ ہی سے پیوستہ اور وابستہ ہے اور لاکھوں مسلمان شہداء کے خوابو ں کی تعبیر بھی۔
ختم نبوت زندہ باد پاکستان پائندہ باد
Haji Zahid Hussain
تحریر : حاجی زاہد حسین ممبر پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ Hajizahid.palandri@gmail.com