تحریر : انجینئر افتخار چودھری جی یہ ملک خدادا پاکستان کے عروس البلاد کراچی کی کوئی جگہ ہے جہاں ایک انتہائی پلے ہوئے بیل کو ایک پلی ہوئی حرافہ بیچنے کے لئے پیش کر رہی ہے۔جی ہاں وہی کراچی جہاں بانی ء پاکستان آرام فرما رہے ہیں۔ایک بار سنا تھا کہ کہ ترکی یں ایک رمضان المبارک کی آمد کی خوشی میں ایک مسلمان نے شراب کی ایک بوتل افطار میں مفت دینے کا اعلان کیا تھا وہ مصطفی کمال پاشا کا بدلتا ہوا ترکی تھا جہاں یہ خرافات کوئی معنی نہیں رکھتیں اب بھی استطنبول ایئر پورٹ پر اتریں تو جائے نماز کے ساتھ ہی دوسری جگہ جائے خمر بھی پائیں گے۔لیکن یہ کیا اس ملک میں جہاں کے لوگ اللہ کے دین کو دنیا بھر سے زیادہ سمجھتے ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں وہاں یہ تماشہ ہونا ایک حیرت کی بات ہی نہیں اچھنبے کی بات ہے۔اس میڈیا نے غریب آدمی کی زندگی اجیرن بنا کے رکھ دی ہے بیلوں کی قیمتیں اس قدر بتائی جا رہی ہیں کہ الحفیظ الاماں کسی بھی چینیل کو دیکھئے لاکھوں میں بات ہو رہی ہے لیکن بازار میں جائیں مناسب بیل آپ کو ستر سے اسی ہزار میں مل جاتا ہے بکرا بیس سے تیس تک مناسب وزن کا دستیاب ہے لیکن ٹی وی والے آپ کو وہ بکرا بتائیں گے کہ آپ کا جی چاہے گا کہ قسطوں میں لے لیں۔
قیمتیں اپنی جگہ مگر جو بے ہودگی اس بیل کے ساتھ دکھائی گئی اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔سنت ابراہیمی کی ادائیگی ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو صاحب استطاعت ہو اور یہ ایک مذہبی فریضہ ہے جو ہمیں ایثار اور قربانی کا درس دیتا ہے۔اس کا ایک ہی مقصد ہے کہ اللہ کا بندہ اپنے رب کے لئے اپنی عزیز ترین چیز بھی قربان کر دے گا۔مگر اسے جد انداز سے پیش کیا گیا ہے مجھے ڈر ہے کہ آئیندہ سالوں میں اگر اس کی روک تھام نہ کی گئی تو تو یہ عامیانہ انداز کہیں ایک رسم ہی نہ بن جائے۔اس دور میں اگر کسی نے آگے بڑھ کر اس بے ہودہ حرکت کو روکنے کی کوشش کی تو اسے آزادی ء رائے کے منافی قرار دے دیا جائے گا اور ہو سکتا ہے اگر کسی نے بڑھ کر اس حرافہ کو چونڈے سے پکڑ کے گھسیٹ لیا تو پاکستان کیا دنیا بھر کی این جی اوز اس کی حمائت میں نکل پڑیں گی اسے ایک سمبل قرار دیا جائے گا کہ جس نے پاکستان کے دقیانوسی معاشرے میں ایک قندیل جلائی تھی۔اور مزید یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ملالہ کی طرح اس کے نام پر کتابیں لکھی جائیں کہ اس دلیر عورت نے ایک بیل کی عظمت کی خاطر لتر کھائے ہیں اور کوئی دور نہیں یہاں اسلام آباد میں کچھ خواتین قندیلیں لے کر پریس کلب بھی پہنچ جائیں کہ دیکھیں ہم اس بہادر خاتون کو سلام پیش کرتے ہیں۔
ہم کسی سر پھرے کے ڈر سے پاکستان اور سندھ حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ فوری طور پر اس عورت کی جان بچانے کا بند و بست کیا جائے ورنہ کوئی اٹھے کا اس دنبہ نما عورت کو تشدد کا نشانہ بنا دے گا۔ دوسری بات بے نظیر کا فیصلہ ہے مجھے فرزند پنڈی کی یہ بات دل کو لگی کہ اس بے چاری کو تین پہیوں والے سٹریچر پر مارا گیا اور اس کے کیس کی کسی نے پیشی پر حاضری نہیں دی اور وہ پاکستان کی وزیر اعظم بے آسرا ماری گئی۔
بڑے لوگوں کی یہ چھوٹی موتیں ہوتی ہیں میں نے لیاقت علی خان،غلام حیدر وائیں،حیات محمد شیر پائو اور اب بی بی کو مرتے دیکھا ہے۔سب دو ٹکے کی موت مر گئے۔گواہ پیش نہیں ہوا اور کیس فارغ جناب زرداری کے بارے میں ٢٠٠٩ میں ایک نعرہ لگا تھا یہ جو نئی بیماری ہے زرداری ہے زرداری ہے۔عدلیہ کا ایک فیصلہ اگر صیح آیا ہے تو اس کا مطلب نہیں کہ سارے فیصلے ہی صیح ہیں یہاں گواہ نہیں پیش کیا گیا اور اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زرداری صاحب بری ہو گئے۔ اب ان لوگوں کو سمجھ آ گئی ہو گی کے نیب کے فیصلے کی نگہداشت کی کیوں ضرورت پیش آئی تھی۔گاڈ فادر لندن گیا ہے دفتر سے پھینکا گیا ہے اس کے پنجے ابھی بھی گڑے ہوئے ہیں ۔اس کے گماشتے ابھی بھی طاقت ور ہیں۔شب کی سنگین سیاہی کو مبارک کہہ دو