اسلام آباد (جیوڈیسک) جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ کسی کو نہیں پتا ریاست کے خلاف اعلان جنگ کرنے والے لوگ کہاں سے آئے ، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا ہے کہ دہشتگردوں کے ٹرائل فوجی عدالتوں میں چلانا کیوں ضروری ہیں؟
سپریم کورٹ میں آئینی ترامیم اور فوجی عدالتوں کیخلاف کیس کی سماعت چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ نے کی۔ عدالت میں طالبان کی قتل و غارت گری اور بربریت کی ویڈیو چلائی گئی۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا ویڈیوز دکھانے کا مقصد یہ ہے کہ ریاست کے خلاف اعلان جنگ ہو چکا ہے؟ اٹارنی جنرل سلمان بٹ نے موقف اختیار کیا کہ ریاست کیخلاف جنگ کا اعلان کرنیوالوں کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوگا کیونکہ یہ لوگ قانون اور آئین کو نہیں مانتے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے کہ ہر طرف تشدد دیکھ رہے ہیں ، کوئی سٹڈی کرائی گئی کہ یہ لوگ کہاں سے آئے؟ انہیں یہاں لانے والا کون ہے؟ ویڈیو میں دکھائے گئے لوگ گرفتار نہیں ہونگے تو ان کا ٹرائل کیا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ آئین ریاست ہے ، اس سے انحراف نہیں کر سکتے ، عدالتیں اسی لیے ہیں کہ آئین سے انحراف نہ ہونے دیں۔