تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری ملک میں برسراقتدار افراد میں سے 90 فیصد سے زائد ایسے ہیں جو بقول شاعر صنعتکار جاگیردار ہوتے ہوئے “خون مزدور شرابوں میں ملا دیتے ہیں”وہ کسانوں کی سردی سے ٹھٹھرتی ہوئی سیاہ راتوں اور سخت محنت و مشقت سے پیداکی گئی فصلوں کو عرصہ دراز سے لوٹ رہے ہیں کسانوں و کا شتکاروں کو کبھی بھی اس کی رت جگوں کی محنتوں کا صحیح معاوضہ نصیب نہیں ہو سکا کہ اول تو جاگیردار ،زمیندار و مالکان زمین ہی مزراعین ومحنت کش کھیت مزدوروں کو صحیح بٹائی کے ذریعے ان کا پورا حصہ نہیں دیتے پھر درمیانے طبقات کے ٹھگ ،آڑھتی حضرات اور کارخانوں کے باہر موجود ٹائوٹ حضرات دھوکا دہی سے ان کی جیبیں کاٹتے ہیں امثال تو کسانوں خصوصاً گنے کے کاشتکاروں کو ایک عذاب عظیم نما شوگر مافیا نے اپنے خونی زہریلے پنجوں میں جکڑ لیا ہے گنے کا 180روپے فی من کا ریٹ جس حکومت نے مقرر کیا تھا انہی حکمران طبقات کے اہم افراد صنعتکاروں کے روپ میں بھیڑیا بنے ان کا گوشت نوچ رہے ہیں۔
انہیں اصل قیمت ادا کرنے کو قطعاً تیار نہ ہیں جنوبی پنجاب کے ضلع رحیم یار خان اور قرب وجوار میں کل چھ شوگر ملیں تھیں جن میں سے دو کو تو ناجائز طور پر نصب کرنے کی وجہ سے ذاتی جہازوں پر اڑنے اور حال ہی میںکرپشن پر نااہل قرار دیے جانے والے صنعتکار جہانگیر ترین کی پٹیشن پر اعلیٰ عدالتوں نے بند کر رکھا ہے دو نئی ملوں کی موجودگی کی وجہ سے کسانوں نے 180000ایکڑ سے زائد پر وافر گنا کاشت کرڈالا تھا جو کہ کھیتوں پر کھڑا سوکھ رہاہے ان زمینوں کے خالی نہ ہو سکنے کی وجہ سے گندم بھی کاشت نہیں ہو سکی دو فصلوں کا نقصان تو کاشتکاروں کی کمر توڑ اور گردن ہی مروڑ ڈالے گاکاشتکار درمیانے طبقے کے ٹھگ افراد کے ذریعے گنا اونے پونے داموں بلکہ 100روپے سے بھی کم ریٹ پر فروخت کرنے پر مجبور محض ہیں گنا فروختگی کی رقوم تو کئی سالوں سے ان مل مالکان نے ادا نہیں کیں تو اب موجودہ فصل کی رقوم تو قیامت کے روز تک بھی شاید نہ مل سکیں!! ایک بڑی مل جیٹھہ بھٹہ میں اور باقی تین ملیں جہانگیر ترین سابق گورنر پنجاب احمد محمود اور سابق وزیر مخدوم خسرو بختیار کی ملکیہ ہیں۔
ان سبھی ملوں کی وہ اہلیت نہ ہے کہ سارے گنا کو کرش کرکے چینی تیار کر سکیں کا شتکار سپریم کورٹ میں دو ملوں کو عارضی طور پر امسال چلانے کی درخواست لے کر گئے تھے مگرترین سے کروڑوں فیسیں لیے مشہور وکیل اعتزاز احسن نے انکی ایک نہ چلنے دی اور قطعاً نہ پورا ہونے والی یقین دہانی پر کہ وہ سارا گنا خرید لیں گے دونوں ملیں بدستور بند رہیں(غالباً شریفوں کے عزیزوں کی ملکیہ ہیں)کسانوں کا گنا کرشنگ کرتی ملوں کے باہر بھی ٹرالیوں پر لدا ہفتوں سے پڑا سوکھ رہا ہے (کہ وزن کی کمی کا نقصان بھی کاشتکاروں کو ہی ہوگا) اس طرح بڑی شاہراہیں تک بھی بند ہو گئی ہیں اور ٹریفک بھی کئی روز بند رہتی ہے جس سے سرحد اور پنجاب سے سندھ جانے والے افراد سخت مشکلات کا شکار ہیں”چینی کی بے چینی”کے موضوع پر گذشتہ کالموں میں وضاحت کی گئی تھی کہ شوگر ملوں کے ظالم مالکان جو کہ ڈھیروں ناجائز منافعوں کے ہی طالب ہوتے ہیں ان سے ان ملوں کا عارضی انتظام واپس لے کر مزدوروں کی منتخب سوداکار ایجنٹ تنظیموں /یونینوں کے حوالے کرڈالاجائے تو سارا نظام درستگی سے چل پڑے گا۔
ملوں کے منافع میں سے 10فیصد کام کرنے والے مزدوروں کو دیا جائے تو یہی مزدور طبقات مل کو “اپنی دودھ پلاتی ماں” سمجھتے ہوئے اس میں انتہائی محنت سے کام کرکے اس کی پیداوار کئی گنا بڑھا دیں گے جس سے ملکی معیشت بھی ترقی پذیر ہوگی اور مزدور بھی منافع ملنے سے خوشحال ہونگے اس طرح آئے دن کے باہمی جھگڑے اورقدورتیں بھی ختم ہوجائیں گی چونکہ یہاں اور سندھ(زرداری کی) و دیگر جگہوں پر موجود سبھی ملیں برسر اقتدار سیاسی پارٹیوں کے اہم راہنمائوں کی ہیں اس لیے کوئی بھی ان بااثر افراد کے معاملات میں مداخلت کاسوچ بھی نہیں سکتا وہ جس کم ریٹ پر چاہیں گنا خریدتے رہیں نہ تو انتظامیہ مداخلت کرسکتی ہے اور نہ ہی مقامی پولیس کوئی جرأت ۔ویسے بھی یہ صنعتکار اتنے بیوقوف نہ ہیں انہوں نے کرشنگ سیزن شروع ہونے سے قبل ہی متعلقہ انتظامیہ وپولیس افسران کو ڈھیروںمال “نذرانے”کی صورت میں لازماً دے رکھا ہو گا کہ جؤا تو ہی نہیں سکتا جب تک اس میں متعلقہ تھانیدار کا حصہ نہ ہو اور اسمبلی کی ممبریاں تو ان کی جیبی گھڑیاں ہیں اور اربوں روپوں کے مالک ہونے کی بنا پر آئندہ آمد ہ 2018کے انتخابات میں کوئی ان سے اسمبلی کی سیٹیں چھیننے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
متعلقہ سیاسی پارٹیاں بھی ان سے 10,15کروڑ روپے “چندہ” وصول کرنے کے بعد انہیں انتخابی ٹکٹیں الاٹ کرنے سے انکار کر ہی نہیں سکتیں۔ویسے بھی ملک کی سیاسی ابتری کی صورتحال اس قدر نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے کہ تھانہ کچہریوں میں اپنی دھاک بٹھانے کے لیے اب سبھی صنعتکار بھی سابقہ ظالم جاگیرداروں کی طرح انتخابات میں لازماً حصہ لیتے ہیںکہ چند کروڑ روپوں سے اگر سیٹ خریدی جاسکتی ہو تو یہ سودا مہنگا نہیں کہ پھر پانچ سال تک ملکی خزانہ اور ڈویلپمنٹ فنڈز صرف انہی کی دسترس میں ہو نگے دو چار ماہ میں سیاسی جوا میں لگائی رقوم واپس اور پھر منافع ہی منافع اور علاقہ کے سیاہ و سفید کی ملکیت علیحدہ ہو گی ان کے اضلاع کے ڈی سی اوز، ڈی پی اوز اور ان کے نچلے افسران کیسے ان کے احکامات کی حکم عدولی کرنے کی ہمت کرسکتے ہیں ؟غرضیکہ سود در سود صنعتکارانہ معیشت کا یہ مخصوص دہشت گردانہ نظام اسی طرح چلتا رہے گا اور ملوں میں کام کرنے والے اور کھیت مزدور کاشتکا ر یونہی اپنے ننھے بچوں کو بھوکوں مرتے دیکھتے ہوئے چیختے چلاتے رہیں گے اور کسی نے “دلیری”کردی تو بمعہ بال بچوں کے نہروں دریائوں میں خود کشیاں اور خودسوزیاں کرنے کی جرآت کر بیٹھے گا اور دنیا کے غلیظ ترین ،اسلام دشمن سودی نظام کے علمبردار و ڈھیروں ناجائزمنافع کمانے والے صنعتکار علاقائی نعروں تمنداریوں اور غنڈوں بدمعاشوں کی فوج رکھتے ہوئے ظلم کا راج بدستور قائم رکھیں گے چینی کا بھائو بھی نکالنا ان کی مرضی سے ہو گا بقول کسے
کیا یہ ملیں اسی لیے چینی کے ڈھیر بناتی ہیں کہ غریب کے بچے اس کے دانے دانے کو ترسیں