میری یہ تحریر پڑھنے والوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان میں ایک طویل عرصے سے دو بڑی سیاسی جماعتیں یکے بعد دیگرے حکومت کرتی چلی آ رہی ہیں کبھی پاکستان مسلم لیگ ن تو کبھی پاکستان پیپلزپارٹی لیکن 2018 کے انتخابات کے بعد ایک تیسری جماعت پاکستان تحریک انصاف ان دونوں بڑی جماعتوں کو پیچھے دھکیلتے ہوئے اقتدار میں آگئی ،جس کے بارے میں اس وقت کئی سوالات اٹھائے جارہے ہیں یہ سوالات پہلے تو کچھ اس قسم کے تھے کہ تحریک انصاف آئی ہے یا لائی گئی ہے ؟ جبکہ اب موجودہ عوامی یا تجزیاتی لوگوں کے سوالات کچھ یوں ہیں کہ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرپائے گی یا نہیں ؟ کیونکہ جس انداز میں تحریک انصاف نے الیکشن سے قبل عوام میں جو امید کے دیئے جلائے تھے وہ اقتدار ملنے کے بعد سے لیکر اب تک اپنی لو کو کھونے لگے ہیں اور ایسا محسوس ہوتاہے کہ زراسی تیز ہواچلی تو کہیں یہ چراغ بجھ ہی نہ جائیں۔
خیر ان تمام تر صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس ملک کی دوبڑی سیاسی جماعتیں بھی مشکلات کا شکار ہیں اور اس پر تحریک انصاف کی حکومت بھی ٹھیک طرح سے سنبھلنے کا نام نہیں لے رہی ہے پھر اس پر ایسا محسوس ہوتاہے کہ ایک تروتازہ جماعت حکمرانی کے لیے وجود میں آنے کے لیے تیاریوں کے مراحل میں آچکی ہے یا پھر تیاریوں میں لائی جاسکتی ہے، اس کا پس منظر یہ ہے کہ کئی دہائیوں سے حکومت کرنے والی دونوں بڑی جماعتیں جن میں سے مسلم لیگ ن واحد وہ جماعت ہے جو اپنے دور حکومت سے ہی مسلسل پریشانیوں کا شکارچلی آرہی ہے اس جماعت کے قائد میاں نوازشریف جو ایک بار قید سے نکلے تو دوسری بارپھر سے ایک اور کیس کی وجہ سے سات سال کی قید میں جاچکے ہیں اور کب تک وہ عوام کے درمیان ہونگے یہ بھی کچھ پتہ نہیں ہے کہ وہ سزاپوری کرینگے یاپھر قانونی ماہرین کی مدد سے اپناکیس ہی خارج کروالینگے اس پر کچھ کہنا قبل ازوقت سا لگتا ہے۔
جبکہ ان کا خاندان بشمول ان کے بھائی میاں شہباز شریف بھی کچھ کم مشکلات میں نہیں گھرے ہوئے بلکہ وہ اس وقت نیب کی قید میں ہیں جبکہ ان کی پارٹی کے لوگ جن پر کچھ مقدمات کا راز کھل چکاہے اور بہت سے مقدمات کا پنڈورا کھلنا باقی ہے۔ یعنی تحریک انصاف کی موجودہ مشکلات کا فائدہ اٹھانے کے لیے مسلم لیگ ن کسی بھی لحاظ سے چاک وچوبند دکھائی نہیں دیتی اور یہ ہی صورتحال کچھ پیپلزپارٹی کے حکمرانوں کو بھی درپیش ہے یعنی یہ کہاجائے تو کسی حد تک درست ہوگا کہ پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور سمیت ان کے دیگر قائدین و رہنماؤں پر جو کیسیز ہیں وہ شریف خاندان سے بھی کہیں زیادہ مشکل ہیں جو کہ کریمنلز نوعیت کے ہیں اور ایسا محسوس ہوتاہے کہ کسی بھی وقت تحقیقاتی ادارے آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ کو گرفتار کرسکتے ہیں اور یہ ہی صورتحال ان کے دیگر عہدیداران کو بھی درپیش ہے۔
مطلب کہ بھلے ہی تحریک انصاف کی حکومت کے پاؤں پالنے میں ہی دکھائی دیئے جا چکے ہیں کہ ان کے اقتدار کا بچہ اسقدر آسانی سے چلنے کے قابل نہیں لگتا۔ مگر یہ طے ہے کہ اس ساری صورتحال کا فائدہ اٹھانے کے لیے اس ملک کی دونوں بڑی جماعتیں کسی بھی لحاظ سے تیاردکھائی نہیں دیتی،جبکہ ملک دور دور تک مارشل لاء کے امکانات بھی زیرو ہیں ۔لہذایوں کہاجائے کہ ملک کی دوبڑی سیاسی جماعتوں کو بس اس بات کی فکر ہے کہ سب سے پہلے ان پر قائم مقدمات کو ختم کیا جائے تب کہیں جاکر یہ سوچیں گے کہ اب عوام میں جایا جائے یا نہیں ۔اور یہ مشکلات میں گھری سیاسی جماعتیں خود بھی یہ ہی چاہتی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کم ازکم چھ ماہ ضرور نکالیں بعد میں ہم ان کو چلتا کرینگے۔
اگر یہ کہاجائے کہ اس چھ ماہ یا ایک سال کے اندر بھی نہ تو حکومت اپنے پاؤں پر کھڑی رہ سکے اور نہ ہی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن پر سے مقدمات کا بوجھ اتراتو اس ساری صورتحال میں تحریک انصاف کا متبادل وجود میں آسکتاہے یا لایا جاسکتاہے اور یہ کیسے ممکن ہوگا اس کا بہت کچھ یہاں بیان کرنا بھی قبل ازوقت ہی ہوگا۔ لیکن ان تما م تر معاملات سے بچنے کے لیے ضروری ہوتاہے کہ سیاستدانوں کو ایک دوسرے کی زاتیات پر حملے کرنے کی بجائے اپنی کارکردگی پر توجہ دینی چاہیے ان کو عوامی فلاح وبہود کے کاموں پر توجہ دینا چاہیے،جہاں سیاستدانوں کے رویوں سے عوام ان سے بددل ہوجاتے ہیں وہاں بہت سے پارلیمنٹیرین ان سیاسی جماعتوں کی کارکردگی سے مایوس اورناامید ہوکر بھی ایک نئی تنظیم کھڑی کرنے کا فیصلہ کرلیتے ہیں لہذا ان سیاستدانوں کااپنی بیان بازی کے دوران محتاط ہونا بہت ضروری ہوتاہے ،تحریک انصاف کی حکومت کو خصوصاًان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے کہ پگڑی اچھالنے کی سیاست کسی بھی لحاظ سے عوام کی خدمت نہیں کہلائی جا سکتی۔
عوام مشکلات میں ہو تو حکمرانوں کو سیاسی بدلے لینے کو زندگی اور موت کامسئلہ نہیں بنانا چاہیے، یہ کہنا ضروری ہے کہ میاں نوازشریف کے دور حکومت میں عوام کو جن پریشانیوں نے گھیرا ہواتھا وہ پریشانیاں اب بھی عوام کا پیچھا کررہی ہیں بلکہ ان پریشانیوں میں مزید اضافہ بھی دیکھنے کو آیاہے ۔ اس میں دو ہی صورتیں کہلائی جاسکتی ہیں یا تو موجودہ حکمران انتقامی سیاست کے لیے حکومت میںآئے ہیں یا پھر ان سے حکومت ہی نہیں چل رہی اور یہ بلیم گیم کی سیاست کے زریعے وقت گزارنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں۔
لہذا تحریک انصاف کی حکومت اگرمیری قبل از وقت پیشگوئی سے بچنا چاہ رہی ہے تو اس کے لیے انہیں عوام کی بھلائی کے لیے قانون سازی کرنا ہوگی اور ایسے انتظامی اقدامات کرنا ہونگے جس سے عوام کا اعتماد حکمرانوں پر بڑھتاہوپھر بھلے ہی ٹی وی چینلوں پر بیٹھے تجزیہ نگار ان کے خلاف زہر اگلتے رہے جب ایک عام آدمی نے اپنے اندر خوشحالی کو محسوس کرلیاتو سمجھو حکومت کامیابی سے اپنا سفر طے کرررہی ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہاہے کہ موجودہ حکومت اس وقت ان تمام باتوں سے عاری ہوکر صرف تنقید برائے تنقید کے کاموں میں زیادہ مصروف دکھائی دیتی ہے ابھی چھ ماہ میں بھی ایسا محسوس نہیں ہو اکہ آگے چل کر ہی کچھ اچھا ہونے جارہاہے لہذا اس سے پہلے کہ عوام ان سے بددل ہو اوراسمبلیوں کی خراب کارکردگی کا رخ کسی اور طرف جائے ا ور سیاسی جماعتوں سے ناراض ہونے والے کچھ صاف ستھرے سیاستدان ایک نئی تنظیم کو کھڑاکریں۔لہذا اس سے پہلے حکومت کو اپنی سمت درست کرلینی چاہیے تاکہ کوئی نئی تنظیم بنے یابنائی جانے کے امکانات ختم ہو جائیں۔ آپ کی فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔