ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن , پیپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف مکمل طورپر ناکام ہو چکی ہیں۔ پاکستان کی معیشت کی زبوں حالی میں ان تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کی بے شمار غلطیوں کا پورا ہاتھ ہے۔ آج کل ہرکوئی بجٹ کے فوائد و نقصانات پر اپنی دانش و حکمت کے پھول جھاڑ رہا ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ ملکی معیشت کو سنبھالنے میں اب تبدیلی سرکار بھی مکمل طورپر ناکام ہوچکی ہے۔ خسارے سے بھرپور بجٹ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ ماضی میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے ملک کو 90 ارب ڈالر کے سودی قرضوں میں جکڑاتو رہی سہی کسر تبدیلی سرکار کی ناتجربہ کاری اور نالائقیوں نے پوری کردی ۔ ماضی کے حکمران ملک دشمن شرائط تسلیم کرکے آئی ایم ایف کے پروگرام لیتے رہے۔ مگر افسوس کہ تبدیلی سرکاربھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہی ۔ لہٰذااب چیخنے چلانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے , کیونکہ ایسا ہی بجٹ متوقع تھا ۔ میرا شمار ان لوگوں میں سے ہوتا ہے جوکہ شروع سے ہی آئی ایم ایف پروگرام لینے یا ایمنسٹی اسکیم لانے کے خلاف لکھتے رہے مگر یہاں سنتا کون ہے؟؟؟ جب آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ہورہے تھے تب کرنسی ایکسچینج ریٹ خاص طورپر حساس معاملہ تھا۔ چنانچہ ہم بھی کہتے رہے کہ کرنسی ایکسچینج ریٹ پر آئی ایم ایف کی شرائط نہ مانی جائیں۔
ٹیکسیشن کے معاملات آئی ایم ایف کے حسبِ منشاء طے نہ کیےجائیں ۔ پیٹرولیم مصنوعات , بجلی , اور گیس پرسبسڈیزختم کرکے نرخ بڑھانے پر آمادگی ظاہر نہ کی جائے ۔ ہمارے سابق وزیر خزانہ اسد عمر آئی ایم ایف پروگرام کے مصری ماڈل کی ظالمانہ شرائط ماننے کوتیار نہ تھے ۔ حالانکہ یہ ہی اسدعمرخود بھی بطور وزیرخزانہ آئی ایم ایف کے پاس جانےکے پرزورحامی تھے ۔ پھراچانک وزیر خزانہ حفیظ شیخ, اور گورنر اسٹیٹ بینک باقررضا مقررہوگئے اور اسدعمر کےگلےمیں پراسرار طورپر ناکامی کا ہار پہنادیاگیا ۔ اورپھر آئی ایم ایف نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کرکے سخت شرائط پر معاہدہ طے کرلیا۔ شرائط کیا تھیں , معاشی خودکشی کے پروانے پر دستخط ہوگئے۔ آئی ایم ایف نے ڈالر کی قدر کے تعین کا اختیار مکمل طور پر مارکیٹ کو سونپنے اور ڈالر کی قدر میں کمی بیشی پر حکومتی عدم مداخلت یقینی بنانے کی شرط پر ہی قرضے دئیے ہیں۔ ڈالرکی قدر کنٹرول کرنےکا اختیاراب نجی اداروں اورآئی ایم ایف کےکارندوں کےپاس چلاگیاہے۔ جس کی وجہ سے مارکیٹ بھی حکومتی کنٹرول سےنکل چکی ہے اورمارکیٹ بےلگام ہونے سےحکومت مہنگائی پرقابو پانےمیں ناکام ہے۔
ڈالر کی قیمت پر ریاستی کنٹرول چھین لیے جانے کا نتیجہ دیکھ لیں ۔ انٹر بینک میں ڈالر کی قدر میں حالیہ اضافہ تشویشناک ہے۔ یہ سلسلہ رکنے والا نہیں بلکہ ڈالر کی قیمت 180 روپے تک جاسکتی ہے۔ اور ڈالرکی قدر میں اب تک ہونے والےاضافے سے غیرملکی قرضوں کی شرح میں کئ ہزارارب روپے اضافہ ہواہے ۔ اگرریاست کےپاس ڈالرکی قیمت کنٹرول کرنےکا اختیارہوتا توکم ازکم مصنوعی طریقےسے ہی سہی ڈالرکی قیمتوں میں اضافہ روک کر غیرملکی قرضوں کا حجم کنٹرول میں رکھاجاسکتا تھا۔ ن لیگ نےاپنےدورِحکومت میں ڈالرریٹ اورمارکیٹ پرکامیابی سےکنٹرول برقراررکھا جوکہ تبدیلی سرکارکی ناتجربہ کاری کے باعث باقی نہ رہ سکا ۔ وزیراعظم کی ایمانداری اور نیک نیتی سب کچھ نہیں ہوتی ۔ ایمانداربھی بغیرتیاری کےبرسراقتدار آئےہیں اور اسی لیےکچھ ڈلیور کرنے میں ناکام ہیں۔
تبدیلی سرکار ملک چلانے میں یکسر ناکام ہوچکی ہے ۔ اقتصادی شرحِ نمو خطرناک حد تک کم ہوچکی ہے۔ تجارتی خسارے میں بھی اضافہ ہورہاہے۔ درآمدات اور برآمدات میں شدید عدم توازن پیداہوچکاہے۔ مہنگائی کا جن بےقابوہوچکاہے۔ پیٹرولیم مصنوعات , گیس اور بجلی کے نرخ آسمان سے باتیں کررہےہیں۔ تبدیلی سرکارکے پہلے بجٹ نے ہی غریب آدمی کےلیے تبدیلی کوڈراونا خواب بنادیاہے۔ کیا غریب آدمی نئے ٹیکسوں کا مزید بوجھ برداشت کرسکےگا ؟؟؟ یہ جواپوزیشن بجٹ پاس نہ ہونے دینے کی دھمکی لگا رہی تھی , کیا موجودہ اقتصادی بحران سے بری الذمہ ہے ؟؟؟ توپھرکیا فرق ہے کہ بجٹ پاس ہوا یا نہیں ؟؟؟ غریب کےمنہ سے ایک ایک نوالہ چھیننے میں ملک کی تینوں بڑی جماعتیں برابرکی شریک ہیں ۔ اصل میں میرے دیس کے ساتھ بہت بڑا ہاتھ ہوا ہے۔
Pakistan Economy
پاکستانی معیشت کو اس قدر کامیابی سے مفلوج کردیا گیا ہے کہ سالانہ بجٹ بھی آئی ایم ایف کی منشاء کے مطابق تیار ہوا ہے۔ یہ کوئی غیر متوقع نہیں تھا , لہذاٰ مجھے قطعاً کوئی حیرت نہیں ہے۔ اب کیا ہوسکتا ہے؟؟؟ عمران خان بھی شاطرانہ چالوں کو بروقت نہیں سمجھ پائےہیں ۔ آئی ایم ایف کےپاس جانےکے غلط فیصلے کی ذمہ داری بڑی حدتک اکانومک ایڈوائزری کونسل کےان ممبران پرعائدہوتی ہے , جنہوں نےآئی ایم ایف پروگرام لینےکی حمایت کی تھی۔ اب قوم کسی معجزے کا انتظارکرےکہ کوئی مسیحا آئےگا ۔ ملک اب کسی بڑے انقلاب کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔