آج قلم کی حرمت بھی فروخت ہو رہی ہے

Writer

Writer

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
اِن دِنوں مُلک میں حکمرانو، سیاستدانوں، بیوروکریٹس کی کرپشن کے حوالے سے جاری اداروں کی خلِش تاریخ کی بلندترین سطح پر پہنچنے کو ہے یعنی کہ آج جس طرح حکومت اور ایوانِ نمائندگان اپنی ضد پر قائم ہیں ایسے میں لگتا ہے کہ کو ئی پیچھے ہٹنے کو تیار ہی نہیں ہے اور ا ُوپر سے احدچیمہ کی گرفتاری کے معاملے پر پنجاب کے افسران ہڑتال پر آجارہے ہیں ہڑتال ختم ہو ئی اور دفاتر کھل بھی گئے ہیں تو بھی کام میں عدم دلچسپی کا مظاہر ہ کیا جارہاہے تووہیں نیب اور آئین و قانون اور عدل و انصاف کرنے والوں کا مُلک سے بلاتفریق کرپشن کے جڑ سے خاتمے کااصولی موقف بھی اپنی جگہہ درست ہے اَب اِس صورتِ حال کے پیشِ نظر مُلک کے طول و ارض میں جو کچھ بھی ہورہاہے! یہ سب کے سا منے ہے جس پر ایک عام پاکستانی شہری اور ووٹرز کے ذہن میں اکثر یہ سوالات اُٹھ رہے ہیں کہ ، ”ہم آخر چا ہتے کیا ہیں؟“ اور” آپ آخر چاہتے کیا ہیں؟ “

جبکہ اِس موقع پر ہونا تو یہ چا ہئے تھا کہ ہمارا اہلِ دانش طبقہ اپنے تئیں ایوانِ نمائندگان وبیوروکریٹس اورذمہ دارانِ عدل و انصاف اور احتساب کرنے والے ادارے نیب تک اپنی رسا ئی کو یقینی بناتا اور اِن سے کی جا نے والی گفت وشنید کی روشنی میں تذذب کے شکار عوام کو مثبت انداز سے آگاہی دیتا اور اگلے وقتوں کے لئے تعمیری سمت میں عوام کی رائے بناتااور عوام کو اگلے متوقعہ انتخابات کے لئے ووٹ کا استعمال کرنے کے لئے متحرک کرتا اور عوام میں مثبت را ئے کا تعین کرتا کہ آج مُلک میں کرپشن اور کرپٹ عناصر کے قلع قمع کے لئے ادارے جو کچھ بھی کررہے ہیں دراصل اِن کا یہ عمل مُلک اور عوام کی بہتری کے لئے ہے لیکن بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ جن سوالات کے تسلی بخش جوابات کے لئے عوام پریشان ہیں آج کوئی بھی ایسا نہیں ہے کہ جوعوام کو مطمئن کرے اور عوام کی پریشا نی کو دور کرے اہلِ قلم نے اپنی یہ ذمہ داری اداکرنے سے خود کو بری الذمہ کرلیا ہے اور اپنے ضمیر کو سُلاکر حکمران الوقت کی خوشامدانہ قصیدہ گوئی میں خود جاگا رہے ہیں ۔اگرچہ ، اِس سے انکار نہیں ہے کہ آج مندرجہ بالا سوالات کے جوابات کی تلاش میں ہمارے اہلِ قلم طبقے سے تعلق رکھنے والے بہت سے نئے پرا نے لکھاری جن کا کام مفادِعامہ میں مثبت اور تعمیری سوچ و فکر کوپروان چڑھانااورپیدا کرنا ہوتا ہے آج وہ بھی وقت کے تیز دھارے میں بمعہ قلم کی حُرمت کے فروخت ہورہے ہیں۔

تاہم پچھلے دِنوں معروف سینیئر کالم نویس اور اینکر پرسن جاوید چوہدری کا کالم ” ہم آخر چاہتے کیا ہیں“ پڑھنے کا اتفاق ہوا جسے تین مرتبہ پڑھنے کے بعد راقم الحرف اِس نتیجے پر پہنچا اور مخمصے میں مبتلاہواکہ یہ کالم اِن کا نہیں ہوسکتا ہے!! اگر واقعی؟ یہ کالم اِنہوں نے ہی لکھا ہے تو دماغ میں اِس سوال نے جنم لیا کہ تو پھر کیا یہ اور اِن کا قلم بھی بِک گیاہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ بہت بُرا ہوا ہے۔تاہم موصوف نے اپنے کالم کی ابتداءمیں ایک واقعے سے یہ باور کرانا چاہا کہ ہماری سوسا ئٹی میں ”کام اور ایمانداری “ دو علیحدہ علیحدہ حصے ہیں یعنی کہ کسی بھی ایک کام کرنے والے شخص میں ضروری نہیں ہے کہ اِس میں کام کی مہارت کے ساتھ ایمانداری بھی موجود ہو گویا کہ اتنے بڑے کالم نویس نے اپنے کالم میں معاشرے کا یہ نقشہ پیش کرناچاہا کہ سر زمین پاکستان میں ایسا ممکن نہیںہے کہ کسی بھی پاکستانی میں ایمانداری اور کام کی مہارت بدرجہ اتم موجود ہے آگے چل کر موصوف نے اِس واقعے کو احدخان چیمہ کے ایشو سے نتھی کردیاپھراِس کا سارا بیک گراونڈ اور ساری ہسٹری بیان کرتے ہوئے لکھاکہ” احد اِتنا قا بل ہے تو اُتنا باصلاحیت ہے، احد خان چیمہ 28کامن کا ڈی ایم جی آفیسر ہے۔

شہباز شریف نے 2012ءمیں لاہور میٹرو کا منصوبہ شروع کیا ،اور وزیراعلیٰ پنجاب نے یہ ٹاسک اِسے دیا تو اِس نے یہ چیلنچ قبول کرلیا،یہ ایل ڈی اے کا ڈی جی بنا اور صرف 11ماہ کی ریکارڈ مدت میں لاہور کی میٹرو مکمل کرلی اِس منصوبے میں 8اعشاریہ 2کلومیٹرکا فلائی اوور بھی شامل تھایہ 230دن میں مکمل ہوا موصوف مزید لکھتے ہیں کہ احد چیمہ نے اپنی دن رات محنت سے یہ منصوبہ جو ایشیا کا دوسرا بڑا فلائی اوور تھا جِسے اِس نے سرانجام دیا اور احد چیمہ کا دوسرا حیران کن کارنامہ قا ئد اعظم تھرمل پاور کمپنی تھا یہ کمپنی پنجاب حکومت نے بنا ئی ، احدچیمہ جولائی 2015ءمیں کمپنی کا سی ای اوبنا اور اِس نے صرف 18ماہ میں 1200میگا واٹ کا پور پلانٹ بنا دیا اَب یہ پلانٹ ملک میں ہا ئیڈرو کے بعد سستی ترین بجلی پیداکررہا ہے وزیراعلیٰ نے اِسے تریموں میں مزید بارہ سومیگاواٹ کا منصوبہ دے دیا ، یہ اِس پر کام کررہاتھااحدچیمہ ایک جونیئر آفیسر ہے یہ گریڈ 18میں رہ کربھی 20ویں گریڈ میںکام کرتارہا یہ انتہائی اہم پوزیشنوں پر بھی رہا اور یہ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتہائی قریب بھی ہے جو اِسے بیٹا کہتے ہیں“ اور کالم نویس نے اپنی اِس تحریر میں احد خان چیمہ کی شان میں جھوم جھوم کر قصیدے بیان کئے کہ لگ رہاتھاکہ لکھاری کے بھی احد چیمہ سے قریبی مراسم ہیں باوجود اِس کے پھر21فروری کو اِس کی گرفتاری کے حوالے سے مُلکی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیاپر آنے والی تصاویر اور خبروں پر بھی دُکھ کا اظہارکرتے ہوئے لکھاری نے لکھاکہ ” احد کی گرفتاری سے متعلق جو تصویر رلیز کی وہ کسی بھی طرح قرین انصاف نہیں تھی “ یعنی کہ اِنہیںاِس کی تصویر پر بھی اعتراض ہوا یہ ٹھیک ہے کہ احد چیمہ کرپٹ ہے یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے مگر پھر بھی اِن کی احدچیمہ کے ساتھ اتنی ہمدردی کا پیدا ہونا بھی ایک بڑا سوال ہے؟

بہرکیف آگے جاوید چوہدری اپنے کالم میں نیب سے سوالات کرتے ہیں کہ ’ ’ احد چیمہ کی تصویر انکوائری اور یفرنس سے پہلے کیوں ریلیز کردی ؟آپ نے ایک افسر کا پورا کیرئیر کیو ں برباد کردیا؟کیا نیب کے پاس اِس سوال کا کو ئی جواب موجود ہے؟ پھر خود ہی کہتے ہیں کہ دوسرا احد چیمہ کی اِس تصویر نے بیوروکریسی کا رہا سہا مورال بھی تباہ کردیا یہ ثابت ہوگیاآپ اگر ملک میں کچھ کریںگے تو آپ کامران لاشاری اور احد چیمہ کی طرح عبرت کی نشانی بن جا ئیں گے بیوروکریسی کے مورال کی یہ ریخت مستقبل میں ملک کا بہت بڑانقصان ثابت ہوگی“ بہرحال ،مختصراََ عرض یہ کہ موصوف نے اپنے کالم میں دیگر مثالوں سے سوفیصد یہ باور کردیا کہ احد خان چیمہ جیسے جو کام کرتے ہیں وہ ایماندا ر نہیں ہوتے اور جو ایماندار ہوتے ہیں وہ کام نہیں کرتے احد نے دس سالوں میں اپنی انتھک محنت سے لاہور کی ترقی میں چار چاند لگا ئے ہیں یعنی کہ اَب اگر آج احد جیسے کرپٹ افسر کوکام نہیں کرنے دیاجاتا ہے بقول اِن کے ہم اگربیوروکریسی میں اندھادھند بابافرید گنج شکرؒ تلاش کرتے رہے تو پھر وقت نکلتا جائے گا“ ارے جناب جاوید چوہدری صاحب،ٹھیریں راقم الحرف کوابھی تک یہ سمجھ نہیںآرہاہے کہ آپ نے اپنا یہ کام کس ذہنی یا جیبی دباو میں آکر لکھا ہے؟یا آپ سے لکھوایاگیا کہ آپ نے اپنے اِس کالم سے اپنے مورال اور سوچ پر بھی ایک قا ری سے سوالیہ نشان لگوالیاہے ارے جناب بابافریدگنج شکرؒ تو بہت بڑی ہستی ہیں کوئی اِن کے پاو ¿ں کی دھول بھی نہیں ہے ارے جناب ہمارے قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے جنہوں نے اپنی ذات پر سرکار کاایک روپیہ بھی بیجا خرچ کرنا گناہ سمجھا اور قول و فعل میں ایسے کھرے کہ جو کہا پتھر پر لکیر جو کیا وہ تاقیامت رہے گا اورہاں میراقائد تو آج کے سیاسی بھرتی یافتہ بیوروکریٹس افسران سے زیادہ قابل اور باصلاحیت تھا ا ٓپ نے قائداعظم ؒکی مثال کیو ں نہیں دی؟ جبکہ ایسی بات نہیں کہ آج اِسی بیوروکریسی میں ایسی لاکھوں شخصیات موجود ہیں جوآج بھی قائداعظمؒ کے نقشہ قدم پر قائم ہیں افسوس کی بات ہے کہ آج کے ہمارے ذہنی طورپر تربیت یافتہ کرپٹ حکمران اِن ایماندار اور ہر معیاری کام کے ماہر بیوروکرسی سے کام لیناہی نہیں چاہتے ہیں۔(ختم شد)

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com