تحریر : پروفیسر مظہر وطنِ عزیز میں رخشِ سیاست جس راہ پر بگٹٹ ہے، وہ تباہی کی راہ ہے اور اب اہلِ سیاست کا ”نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں۔ جب اضطراب اپنی انتہاؤں کو چھونے لگتا ہے تو لہجوں میں تلخی کا عنصر کئی گنا بڑھ جاتا ہے جس کا منطقی انجام تصادم اور اُس کے نتیجے میں تباہی ہوتا ہے۔ پاکستان اِس وقت اسی کیفیت سے دوچار ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے تناؤ اور ہیجان کا سونامی سارے بند توڑ کر باہر نکلنے کو بیتاب ہو۔ عام انتخابات ابھی دور ہیں لیکن اضطرابی لہریں ابھی سے جاری و ساری۔ ماننا پڑے گا کہ یہ کیفیات عمران خاں کی پیدا کردہ ہیں جو 2013ء سے اب تک احتجاجی سیاست کے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر سیاسی اکھاڑے میں موجود ہیں۔ مقصد مسندِ اقتدار لیکن کیا مغلوب الغیض ہو کر وہ اونچے ایوانوں تک پہنچ پائیں گے۔
کیا تاریخ میں ایسی کوئی ایک مثال بھی موجود ہے کہ کوئی شخص عقل و خرد کا دامن چھوڑ کر نرگسیت’ جذباتیت’ ضد اور ہٹ دھرمی کے سہارے اپنی منزل تک پہنچ پایا ہو؟۔ اگر نہیں تو پھر کپتان صاحب کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ وہ صرف اپنا ہی نہیں ، ملک و قوم کا بھی نقصان کر رہے ہیںاور اُن کے غلط فیصلے اُن کی مقبولیت کے لیے سُمِ قاتل ثابت ہو رہے ہیں۔ کپتان صاحب کو اپنی مقبولیت کے اس راز سے بھی آگاہ ہونا ہوگا کہ تبدیلی کی جبلی خواہش نے عوام کو ان کے پیچھے لگا دیا اور ایک موقع ایسا بھی آیا کہ اُن کے خلاف لکھنے سے پہلے لکھاریوں کے قلم تھرتھرانے لگتے لیکن پھر ”خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا ،جو سنا افسانہ تھا”۔ وہ جو ”تبدیل شدہ” چہرے سامنے لائے ،اُنہیں دیکھ کر عوام مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتے چلے گئے۔
بھلا گھاٹ گھاٹ کا پانی پئے جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی، تبدیلی لا سکتے ہیں یا بھنورے کی طرح ڈال ڈال کا رَس چوسنے والے شفقت محمود۔ یا پھر مصطفےٰ کھر ،جو اتنی سیاسی پارٹیاں بدل چکے ہیں کہ اُن کے بارے میں کسی کو یہ بھی علم نہیں کہ آجکل وہ کس سیاسی جماعت میں جلوہ افروز ہیں ۔اب فردوس عاشق اعوان اور نذر گوندل تبدیلی کا استعارہ بن کر سامنے آ گئے ہیں ۔اگر نیا پاکستان انہی کے ہاتھوں تشکیل پانا ہے تو پھر بن چکا نیا پاکستان۔ کپتان صاحب کے بعد اب نوازلیگ بھی اضطرابی کیفیت کا شکار ہو چکی ۔ ہیجان تو پہلے ہی تھا لیکن نہال ہاشمی کی تقریر نے جلتی پر نہ صرف تیل کا کام کیا بلکہ یہ آتش فشاں بن گئی ۔وزیرِاعظم صاحب نے فور ایکشن لیتے ہوئے نہ صرف اُن کی رکنیت معطل کی بلکہ سینٹ کی سیٹ سے بھی استعفےٰ لے لیا ۔ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے نہال ہاشمی کو توہینَ عدالت کا ملزم ٹھہرایا اور سیاسی جماعتوں نے یہ شور مچا دیا کہ نہال ہاشمی کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے ، دراصل اُس کے پیچھے میاں نواز شریف کا ہاتھ ہے۔
نہال ہاشمی کی تقریر غلط’ بالکل غلط۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم، سوال مگر یہ ہے کہ جب شیخ رشید نے کہا تھا ”عدالت سے قانون کا جنازہ نکلے گا یا نون کا ”۔ تب عدلیہ کا آہنی پنجہ اُس کی گردن پر کیوں نہیں کسا گیا؟ اس قسم کے بیانات کپتان صاحب بھی متواتر دیتے چلے آ رہے ہیں لیکن انہیں توہینِ عدالت کی لٹکتی تلوار کا خوف ہے نہ خطرہ۔ میاں صاحب کے بیٹوں سے کئی کئی گھنٹوں پر محیط تفتیش نے بھی سیاسی گھٹن میں اضافہ کر دیا ہے۔ حسین نواز کی سوشل میڈیا پرتصویر نے بھی خوب دھوم مچائی۔ اسی تصویر کو بعد ازاں تحریکِ انصاف کے علی زیدی نے شیئر کیا اور جی بھر کے میاں خاندان کی بے بسی کا مذاق اُڑایا گیا۔ یہ حرکت نواز لیگ کو مشتعل کرنے کے لیے کافی تھی، اِس کے باوجودمیاں صاحب کا صبر و تحمل قابلِ ستائش رہا ۔ سوال مگر یہ ہے کہ جوڈیشل اکیڈمی میںتو کوئی پرندہ بھی پَر نہیں مار سکتا۔ اِس وقت وہاں جے آئی ٹی کا راج ہے، کسی وکیل تک کو بھی اندر آنے کی اجازت نہیں، پھر یہ تصویر سوشل میڈیا تک کیسے پہنچی؟۔ کل کلاں اگر جے آئی ٹی کی کارروائی بھی سوشل میڈیا پر نظر آنے لگی تو جے آئی ٹی کی تحقیقات پر کون اعتبار کرے گا؟ وہ کون سے خفیہ ہاتھ ہیں جو بہرصورت تصادم چاہتے ہیں۔
یہ بجا کہ وزیرِاعظم صاحب اور اُن کا خاندان انتہائی صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہے لیکن وزراء اور حکومتی ترجمان انتہائی طیش میں ہیں۔ اُنہیں بھی تحمل سے سوچنا ہوگا کہ اِس وقت دونوں ایوانوں میں نوازلیگ کا پلّہ بھاری ہے اور وہ دوسری بار بھی آسانی سے حکومت بنا سکتی ہے۔ اِس لیے اپوزیشن تصادم کا ہر حربہ استعمال کرے گی جس سے نوازلیگ کو دامن بچانا ہے ۔ اُسے پیپلزپارٹی کی طرح سیاسی شہید بننے کی قطعاََ ضرورت نہیں کیونکہ دِگرگوں حالات کے باوجود اِس کی مقبولیت کا گراف اب بھی اتنا اونچا ہے کہ وہ آمدہ انتخابات آسانی سے جیت سکتی ہے ۔ پیپلزپارٹی نے اپنے دَورِ حکومت کے آخری سال میں سیاسی شہید بننے کی بھرپور کوشش کی لیکن عسکری قیادت کی عقلمندی سے یہ بیل منڈھے نہیں چڑھی ۔ میدانِ سیاست کے سب سے زیادہ تجربہ کار میاں نوازشریف کو ملک و قوم کی بہتری کی خاطر انتہائی حکمت اور صبر و تحمل سے اپنا دامن بچانا ہوگا ۔یہ بجا کہ بقا کی جبلت اُنہیں مجبور کر رہی ہے کہ وہ اپنا مقدمہ نہ صرف عدالت بلکہ عوام میں بھی پیش کرکے سرخرو ہوں لیکن اُنہیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ یہاں شیخ رشید جیسے جلتی پہ تیل پھینکنے والے بھی بہت ہیں۔
حقیقت تو یہی اور 2011ء سے اب تک کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ ”مافیا” کا کردار تو تحریکِ انصاف نے ہی ادا کیالیکن حیرت ہے کہ کسی نے اُسے ”سسلی مافیا” کا خطاب دیا نہ ”گاڈ فادر” کا اور وہ جو اپنے پورے خاندان کے ساتھ درِ احتساب پہ حاضر ہے ،وہ قانون کی نظر میں سسلی مافیا بھی ٹھہرا اور گاڈ فادر بھی۔