ھمزاد نے میرے پریشانیوں سے بھرے چہرے اور جھکے سر کو دیکھا اور کہا میں جانتا ہوں تیرا دل نئی مسرتوں سے معمور ہے اور ذہن حسین تصورات سے مالا مال مگر ان پر اب تفکرات کے گہرے بادل اور اندیشے بھی کلبلا رہے ہیں تو معاشرے کے ان کژدم اور اژدھر سے خوفزدہ ہے۔ تو ملک کے سربراہوں کے وعدوں کو دیکھتا ہے تو تیرا چہرہ مسرت سے تابناک ہو جاتا ہے مگر جب ان کے وعدوں کو ان کی کتابِعمل میں پڑھتا ہے تو غم و اندوہ میں ڈوب جاتا ہے تو فقط اپنے ذاتی اندیشوں سے پریشاں و ہراساں ہے اور میں مرکبِ حالات کی جنبش کو دیکھتا ہوں مجھے ملک کے طول و عرض میں اٹھتے وہ بگولے دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے تیرے مستقبل کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ آ تجھے ان کا نظارہ کرائوں تاکہ تو جان سکے کہ وقت کا پہیہ کس گردش ِ دوام میں ہے یہ دیکھ یہاں بربریت اور دہشت گردی کا گھنائونا کھیل کھیلا گیا ہے۔
یہ کٹی پھٹی لاشیں جو ایک پل پہلے زندگی سے بھرپور تھیں اب بے جان لہو لہو لوتھڑے ہیں۔ یہ سب کے سب وہ ہیں جن کی کسی سے کوئی عداوت نہیں تھی مگر یہ سب اندھی موت کی بھینٹ چڑھ گئے تو کیا پیچھے مڑ مڑ کر دیکھ رہا ہے تو یقیننا ان کی ہلاکت پہ غمزدہ ہے، تجھے حیرانی ہے نہ کہ ایک مسلم ہی دوسرے مسلم کا گلا کاٹ رہا ہے۔
یہ سگنل پہ دیکھ اخبار بک رہا ہے اس کے بیچنے والے کی صدا سن اس کے پاس بھی قتل وغارت ،اغوا،اور موت کی خبروں کے سوا کچھ نہیں۔
آ اب تجھے وادیِ سیاست کی سیر کروائوں اس میں بھول کر بھی قدم نہ رکھنا کیونکہ یہ وادی صرف چند برہمنوں نے اپنے لیے مخصوص کر رکھی ہے اور پوری قوم کی حیثیت ان کے مقابلے میں شودر کی سی ہے یہاں مخصوص قسم کے ضمیر اور مزاج کی ضرورت ہوتی ہے جو دولت میں پرورش پاتا ہے اور جوڑ توڑ کے ماحول میں پروان چڑھتا ہے اس بازار کی سب سے بے حقیقت اور بے مایہ چیز اصول پرستی ہے، یہاں ضمیر کے سودے ہوتے ہیں اور راتوں رات ضمیر بیچ کر کرسیاں خریدی جاتی ہیں۔
Vote
لوگوں کو لالچ اور بہلاوئوں کے ریپر میں لپیٹ کر مارکیٹ میں لے جایا جاتا ہے اور ووٹوں کے عوض بیچ دیا جاتا ہے۔ معززین ِسیاست صبح و شام وعدوں کی گولیاں عوام کو کھلاتے ہیں۔ یہ دیکھ یہ یہاں کا نظام ہے یہاں کوئی بھی کام کروانے کے لیے خواہ وہ جائز ہی کیوں نہ ہو بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔
اونچی اونچی بارگاہوں میں رشوت اور سفارش کے نذرانے پیش کرنے پڑتے ہیں، یہاں نقدی کے ساتھ ساتھ آبروئیں بھی نذر میں پیش کی جاتی ہیں اس کے علاوہ گاڑیاں، بنگلے، کوٹھیاں بھی لی اور دی جاتی ہیں۔ یہ سب ایسی آمدنی سے ہوتا ہے جس کا حساب کتاب کسی کھاتے یا کتاب میں نہیں ہوتا۔
ھذامن فضل ربی کی عبارت والی عمارت کی تعمیر لوگوں کی خون پسینے کی چھینی ہوئی کمائی سے ہوتی ہے۔ میری آنکھوں میں آنسو بھرآئے ہمزاد نے میری جانب دیکھا اور استہزائیہ لہجے میں کہا بددل مت ہو آگے بڑھو یہ دیکھو امت مسلمہ کی مساجد ہیں لوگ ڈرڈر کے اندر داخل ہو رہے ہیں کیونکہ اب اللہ کے گھر میں بھی امان نہیں نجانے کب کوئی خودکش دھماکہ اور دہشت گردی ان کو ملیا میٹ کر دے فرقہ بندی اور ذاتیں ہیں زمانے میں پنپنے کی اب یہی باتیں ہیں آہ مسلمانوں تم نے ایک اللہ اور اس کے رسول کے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اب بھی دعوی ِمسلمانی ہے۔
Poverty In Pakistan
یہ دیکھو اس چوک پہ رش لگا ہے آئو دیکھو ارے یہ تو ایک نوجوان نے خو د سوزی کر لی اپنی اعلی ڈگریوں کو اپنے ساتھ جلا کر خاک کر لیا۔ یہ اس طرف ایک باپ نے غربت کے ہاتھوں تنگ آ کر اپنے جگر کوشوں کو اپنے ہاتھوں سے زہر پلا دیا تاکہ وہ روز روز کے مرنے سے ایک بار ہی مر جائیں۔ یہاں صف ماتم بچھی ہے اس کے سامنے ایک امارت کے نشان کو دیکھو ایک کوٹھی جو بقمہء نور بنی ہوئی ہے اندر سے قہقہے برآمد ہو رہے ہیں۔ جام پہ جام لنڈھائے جا رہے ہیں محفل میں تھرکتی حسینائیں اور پانی کی طرح شراب بہائی جا رہی ہے اس طبقے کو کسی کی تکلیف یا دکھ سے کوئی سروکار نہیں۔
یہ وہ عزت دار طبقہ ہے جسے عوام نے تخت پہ بٹھایا تھا آج یہ اقتدار کے نشے میں دھت اپنی ہی عزت کا جنازہ نکالنے میں مصروف ہیں۔ اب یہ اسی نشے میں مردہ کتوں کی مانند صبح تک لڑھکے رہیں گے اور ہوش میں آنے پہ اپنی کالی کمائی کو سفید کرنے کے چکر میں احرام باندھ کر عمرے کو چل پڑیں گے۔ ہمزاد کی یہ باتیں اگرچہ تلخ تھیں مگر حقیقت پر مبنی تھیں ان سے انحراف گویا سچائی سے انحراف تھا ۔میں نے اپنے جھکے سر اور آنکھوں کو اور جھکا لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔