تحریر : رقیہ غزل گذشتہ ہفتے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے سینٹ میں ان کیمرہ بریفنگ دی جس میں انھوں نے ملکی صورتحال اور بالخصوص دھرنوں کے باعث ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام میں فوج کے کردار بارے تمام شکوک و شبہات کو دور کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ آئین کے تابع اور جمہوریت کے ساتھ ہیں ۔ایسے ہی چند روز قبل جناب چیف جسٹس آف پاکستان ،ثاقب نثار نے ایک سیمینار سے خطاب میں کہاکہ :” عدلیہ کسی پلان یا سازش کا حصہ نہیں ہے ہم پر دبائو ڈالنے والا پیدا نہیں ہوا ہے ، اگر ایسا ہوتا تو حدیبیہ کا فیصلہ مختلف ہوتا ،فیصلہ خلاف آنے پر گالیاں مت دیں ،ماضی میں عدلیہ کے خلاف سازش ہوئی اور اسے داغدار بھی کیا گیا مگر اب قوم کو نوید ہو کہ آج اعلیٰ عدلیہ کا محور ہی عدل ہے ، اوپر سے کچھ درست ہوگیا ہے اور یہ اصلاح ضرورنیچے تک سفر کرے گی ”انہوں نے مثال دی کہ گائوں میں ایک بابا رحمتے ہوا کرتا تھا ،لوگ اپنے مقدمات پیش کرتے ،بابا کی اتنی ساکھ تھی کہ لوگ اس کے ہر فیصلے کو بسروچشم قبول کر لیتے تھے اور باہر جا کر کوئی بھی فریق اسے گالیاں نہیں دیتا تھا ۔الغرض جناب چیف جسٹس نے بڑی خوبصورتی سے وضاحت بھی دی ،ماضی میں انصاف کی فوری فراہمی نہ ہونے کا بھی اعتراف کیا اور عدلیہ کی شفافیت کو بھی بیان کر دیا اور یہ کہہ کر کہ عدلیہ پر کوئی دبائو ڈالنے والا پیدا نہیں ہوا عدلیہ مخالف بولنے والوں کو اصلاحی انداز میںتنبیہ کی کہ مہذب اقوام کی طرح عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کرنا سیکھیں ۔مگر ردعمل میں بی بی مریم نے ٹویٹ کیا کہ :مائی لاڈ!کیا آپ کا بابا واٹس ایپ بھی کرتا تھا ؟ واٹس ایپ کوئی گناہ نہیں ہے اور اگر اس زمانے میں واٹس ایپ ہوتا تو بابا رحمتے اسے بھی استعمال کرتا۔
عوام حیران ہیں کہ جناب آرمی چیف اور جناب چیف جسٹس وضاحتیں پیش کیوں کر رہے ہیں کیا وہ شریف خاندان کی سازش کا شکار ہوگئے ہیںیا سیاسی پارٹیوں کی جوڑتوڑ سے پریشان ہو گئے ہیں یا واقعی سمجھتے ہیں کہ ملکی استحکام کے لیے سب کا ایک ہونا ضروری ہے ؟ آرمی چیف کی ایوان بالا سے تاریخی ملاقات ،آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان کے وضاحتی بیانات آج کل سیاسی ،سماجی اور صحافتی حلقوں میں موضوع گفتگو ہیں ۔ہر کوئی اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق اس کو معنی پہنا رہا ہے ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق ایک گھنٹے کی بریفنگ اور ٣ گھنٹے کے سوال و جواب کے سیشن میں اتفاق ہوا کہ پاکستان کو درپیش خطرات کے خلاف مل جل کر کام کیا جائے گا،خطے میں سیکیورٹی کے حوالے سے سینیٹرز پوری طرح سے واقف ہیں اور آرمی چیف نے مزید کہا کہ ریاستی نمائندے کی حیثیت سے پہلے بھی کام کیاہے اور اب بھی ریاستی نمائندے کے حیثیت سے ہی کام کیا جائے گا اورپاکستان محفوظ ملک ہے۔۔سینیٹ اراکین نے آرمی چیف کی ایوان بالا میں آمد کو سول ملٹری تعلقات اور پاکستان کی جمہوری تاریخ کے لیے اچھا اقدام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کنفیوژ ن کی صورتحال میں خوف و خدشات دور ہو گئے ہیں،اس ملاقات سے سیاسی و عسکری قیادت کے مابین تعاون بڑھے گے اور کشیدگی کم ہو جائے گی ۔
کیا یہ ملاقات اداروں کے مابین فاصلوں کو کم کرنے کے لیے ہی تھی ؟کیا حکومتی جماعت آرمی چیف کی طرف سے دھرنے پر دئیے گئے بیان پر مطمئن ہو جائے گی اور اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف ہرزہ سرائی بند ہو جائے گی ؟جیسا کہ سیاسی جماعتیں چاہتی تھیں کہ تمام ادارے منتخب پارلیمنٹ کو جواب دہ ہوں مگر وہ کسی کو جواب دہ نہ ہوں تو کیا اب ایسا ہی ہوگا ؟ مبصرین کے مطابق بھی آرمی چیف کو اجلاس میں شرکت سے معذرت کر لینی چاہیے تھی کیونکہ اگر سینٹ کو سیکیورٹی معلومات اور خارجہ امور کی معلومات درکار تھیں تو وزیر خارجہ اور وزیر دفاع بھی بتا سکتے تھے ۔لیکن آرمی چیف نے دھرنے پر فوج کے کردار کو مشکوک کرنے والوں کے منہ پر طمانچہ مارا ہے ۔میں نے پہلے لکھا تھا کہ پوری قوم کو پاک افواج کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ حکومت ماڈل ٹائون جیسی خونریزی کا عندیہ دے چکی تھی مگر آرمی چیف نے سب کو بچا لیا ۔ مگر حکومت بچتی نظر نہیں آرہی کیونکہ سیاسی انتشار بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور وقت سے پہلے الیکشن کی گونج سنائی دے رہی ہے ۔سیاسی قائدین کے مطابق بھی حالات اچھے نہیں ہیں ،بہت کچھ ایسا ہو رہا ہے جو بظاہر نظر نہیں آرہا اورجو نظر آرہا ہے وہ کسی کو دکھائی نہیں دے رہا کہ پاکستانی سیاست اس قدر گندی ہو چکی ہے کہ آج کی سیاست بد لحاظی ،زبان درازی ،دشنام طرازی اور دست درازی میں سمٹ کر رہ گئی ہے ۔ تو کیا ہی اچھا ہو کہ آرمی چیف نے جو روایت ڈالی ہے اسے آگے بڑھایا جائے اور ختم نبوت سے متعلقہ شقوں کو ختم کرنے والوں ، اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں ، ماڈل ٹائون سانحہ کے ذمہ داروں ، گڈ گورننس کا جھوٹا خواب دکھانے والوں سبھی عوامی نمائندوں اور ذمہ داران کو سینٹ میں بلایا جائے اور پوچھا جائے کہ جواب دو ۔۔ انھوں نے کس چیز کا حلف لیا تھا اور وہ کیا کر رہے ہیں؟ ویسے تو سبھی کہیں نہ کہیں معترف ہیں کہ وہ ”غلط ” ہیں کہ مئیر وسیم اختر نے چند روز پیشتر ایک پروگرام میں کہا کہ عمران خان پاکستانی پالیٹکس کے لیے ”مس فٹ ” ہے کیونکہ پاکستانی سیاست جس قدر ”گندی” ہو چکی ہے ویسی سیاست عمران خان کو نہیں آتی ۔مقام افسوس ہے، سیاست کو سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور ہوس اقتدار نے گالی بنا دیا ہے مگر کیاکریں کہ شرم وحیا کے پردے اٹھ چکے ہیں اوراخلاقیات کا جنازہ شان سے نکل رہا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ قانون کا احترام بس غریبوں پر واجب ہے۔
جب سے عمران خان کو عدالت کی طرف سے ”اہل” اور جہانگیر ترین کو نااہل کیا گیا ہے تب سے ہی ن لیگ کی طرف سے عدلیہ کے خلاف ہرزہ سرائی میں تیزی آگئی ہے اور بی بی مریم نے تو صاف کہہ دیا کہ اس نا اہلی کے پیچھے اقامہ نہیں بلکہ عمران نامہ ہے ۔الغرض کہیں ”تحریک عدل ” کے نام سے توہین عدالت کی جارہی ہے اور کہیں مظلومیت کا رونا رو کر رائے عامہ ہموار کی جا رہی ہے لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان کو عدالت نے صادق اور امین ثابت کر دیا ہے جبکہ جہانگیر ترین نے نا اہلی کا فیصلہ آنے کے بعد استعفی دیکر ایک بہت اچھی مثال قائم کی ہے جسے عوامی حلقوں میں بہت سراہا جا رہا ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف بیک سٹیپ لیتے دکھائی دئیے او ر گھبرا کر میاں شہباز شریف کو میدان میں اتارنے کا اعلان کر دیاہے چونکہ میاں شہباز شریف اداروں کے چہیتے سمجھے جاتے ہیں اور ہمیشہ بڑے بھائی اور بھتیجی کو اداروں پر تنقید سے منع بھی کرتے پائے گئے ہیں علاوہ ازیں وہ خوشامدیوں سے محتاط رہنے کا بھی درس دیتے رہے ہیںبایں وجہ اس وقت مضبوط امیدوار سمجھے جا رہے ہیں۔۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ اقتدار کا ہما کس کے سر پر بیٹھتا ہے کیونکہ ”اللہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے ”مگر یہ طے ہے کہ مہذب اقوام میں جمہوری حکومتیں جمہوریت پسند ہوتی ہیںاور افواج سول حکومتوں کو جوابدہ ہوتی ہیں ۔منتخب حکومتوں کے بنائے گئے قوانین پر سیکیورٹی ادارے کام کرتے ہیں ۔بدقسمتی سے پاکستان میں جب بھی جمہوری حکومتیں آئیں انھوں نے ذاتی مفاد کو ملکی مفاد پر مقدم سمجھا اور ووٹ کی حرمت کو پامال کیا۔سبزی اور دال بھی غریب کی پہنچ سے دور ہوچکی ہے۔نام نہاد منصوبوں ،تشہیری پروگراموں اور آنے والے الیکشن کی در پردہ تیاری پر غلط انداز اور غلط اصراف میں قومی خزانہ لٹایا جا رہا ہے ۔کشکول توڑنے کا وعدہ کیا اور اسے عوام کے گلے کا طوق بنا ڈالا ۔عوام دلکش وعدوں اور پر کشش دعووں کے تار عنکبوت میں ہر بار پھنس گئے کبھی ڈکٹیٹروں کی چھتری تلے جمہوریت کی چھائوں ڈونڈھتے رہے اور کبھی سویلین کے پیروں میں ضروریات زندگی کی بھیک مانگتے رہے مگر ہر صدا بے اثر رہی بلکہ اشرافیہ نے تو خود کو آئین سے بالا دست سمجھ کر ہمیشہ کوشش کی کہ ایسے قوانین کو حذف کر دیا جائے جو اشرافیہ کو کٹہرے میں لاتے ہیں اور ایسے سروں کو کاٹ دیا جائے جو ان کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ اسلامی قوانین کے نفاذ کا نعرہ سب نے لگایا لیکن مغرب کی پیروی کرنے میں ساری صلاحیتیں وقف کیں یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان عدم استحکام کا شکار ہورہا ہے اور علامہ اقبال نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ :
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیاں بنے گا نا پائیدار ہوگا
جیسے کوئٹہ میں چرچ پر حملہ کر کے مذہبی انتشار پھیلانے کی مذموم کوشش کی گئی یعنی دشمن اپنی کاروائیوں میں مصروف ہے مگر سیاسی قیادت ہوش کے ناخن نہیں لے رہی بلکہ من مانیاں اور ریشہ دوانیاں بڑھتی جا رہی ہیں جبکہ امریکہ نے پھر ڈو مور کا مطالبہ کر دیا ہے تو اس وقت بے شک چوہدری نثار نے ٹھیک کہا ہے کہ جوش کی نہیں ہوش کی ضرورت ہے ورنہ دشمن ہماری فصیلوں میں گھسا بیٹھا موقع تاک رہا ہے ۔مگر یہی لوگ جب پوری قوت سے اقتدار اور اختیار میں ہوتے ہیں تو نا جانے تب انھیں کیا سانپ سونگھ جاتا ہے ۔اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے کیونکہ حالات و واقعات غلط نتائج کی نشاندہی کرتے جا رہے ہیں اور اشرافیہ ہے کہ پاکستانی سالمیت کیلئے مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہے ہر کوئی اسے مال مفت سمجھ کر کھانا چاہتا ہے بس موقع ملنے کی دیر ہے ۔اس موقع پر عوام کو دوراندیشی سے کام لینے کی ضرورت ہے کیونکہ ان ہی کے ووٹ کے استعمال سے پاکستان آج ایسے حالات سے دوچار ہے آج اگر ہمارے سیاستدان ملک اور مذہب سے مخلص نہیں تو کم ازکم عوام کو ضرور ہوش سے کام لینا چاہیے۔