ملک میں دہشتگردی کی لہرجاری لیکن نادرا حکام کی ملی بھگت سے لاکھوں جعلی کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ بلاک نہ ہوسکے

لاہور: دہشتگردی کی واردتوں میں جعلی کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ استعمال ہونے کا خدشہ۔ ملک میں دہشتگردی کی لہرجاری لیکن نادرا حکام کی ملی بھگت سے لاکھوں جعلی کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ بلاک نہ ہوسکے ۔ ذرائع کے مطابق نادرا حکام کی ملی بھگت سے مختلف طریقوں سے بنوائے گئے لاکھوں جعلی کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ بلاک ابھی تک شہریوں کے زیر استعما ل ہونے ساتھ ساتھ نادرا حکام کی ملی بھگت سے خطرناک ملزمان نے اعلیٰ عہدوں پر نوکریاں بھی حاصل کرلی ہیں۔

اس بات کا انکشاف نادرا حکام نے چندماہ پہلے بھی کیا تھالاکھوںجعلی کمپیوٹرائزڈ کارڈز کا پتہ لگایا گیا ہے جو اب بھی شہریوں کے زیراستعمال ہیں۔ ان میں سے لاکھوں کارڈز 2005 میں ہونے والے بلدیاتی اور 2008 میں عام انتخابات میں بھی استعمال ہوئے۔ اب بھی ایک لاکھ سے زائد غیرقانونی ذرائع سے بنوائے گئے جوکمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ شہریوں کے زیراستعمال ہیں جو بینک اکاؤنٹس کھلوانے، موبائل فون کی سمز کے اجراء اور پاسپورٹس اور دیگر اہم دستاویزات بنوانے میں بھی استعمال ہو رہے ہیں۔

نادرا حکام کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ دوہری شناخت کے حامل افراد کو یہ شناختی کارڈ واپس کردیں ورنہ ان کے خلاف ریاست کے خلاف جرم کے الزام میں مقدمات قائم کئے جائیں گے اور اگر اس میں نادرا کے عملے کے ملوث ہونے کے ثبوت ملے تو ایسے افراد کو نہ صرف نوکری سے فارغ بلکہ قانونی کارروائی بھی کی جا ئے گی۔ ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک بااثر شخص کی ایماء پر چیئرمین نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) طارق ملک کی بطور چیئر مین نادرا 17-7-2012کوتقریباً 10 لاکھ روپے تنخواہ پر تعینات کیا گیا۔

طارق ملک کینیڈا کے شہری ہیں۔ جبکہ ان کی پوسٹ MP-1 گریڈ کی ہے جس کی تنخواہ بہت کم ہے۔ ان تمام غیر قانونی اقدامات کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں مدعی عمران احمد بٹ کی جانب سے کیس نمبر wp2664/13 دائر کیا گیا۔ جس کے مختصر فیصلے کے مطابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے طارق ملک کی تقرری غیر قانونی قرار دے دی ہے اور انہوں نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ ایک غیر ملکی کو انتہائی حساس معلومات تک اس حد تک رسائی دیدی گئی ہے کہ وہ صرف ایک بٹن دبا کر اہم معلومات کسی بھی ملک کو فراہم کر سکتا ہے۔ کیس کا تفصیلی فیصلہ ابھی آنا باقی ہے۔