تحریر: علینہ ملک, کراچی کچھ ہی دن پہلے کا ذکر ہے نجانے کیوں ایک عجیب سی خوش فہمی تھی یا پھر غلط فہمی ، جس نے پوری قوم کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا کہ شاید اب پاکستان نے دہشت گردی سے مکمل طور پر نجات پالی ہے اور اب یہاں کسی کی زندگی کو کوئی خطرہ لائق نہیں ہوگا ۔ سکون ہوگا، امن و امان ہوگا۔ خوف اور دہشت کے سائے جو ہر وقت ہمارے سروں پر منڈلایا کرتے تھے ان سے کچھ نجات ملی تھی۔ ہر وقت جو دھڑکا سا لگا رہتا تھا کہ نجانے کب کس جگہ، کس اسکول، کالج، یونیورسٹی، سڑک، بازار، دفتر اور چوراہے پر بم دھماکہ ہوجائے تاہم آپریشن ضرب عضب سے یوں لگا کہ جیسے طویل عرصے بعد کچھ پل سکون کے ملے ہیں۔
پاک فوج کی جانب سے ضرب عضب گزشتہ سال دہشت گردی کے خاتمے کے لئے شروع کیا گیا، مگر ایسا لگتا ہے جسے کوئی خواب تھا جو آنکھ کھلنے سے ٹوٹ گیا ہو ۔ ایک سال کے بعد صرف تاریخ اور مہینہ کے فرق سے ایک اور تعلیمی ادارہ ، وہاں پر زیر تعلیم بے گناہ نہتے طالبعلموںکو نشانہ بنایاگا۔ 21 دسمبر جو پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا اور گمان تو یہی تھا کہ اب اس قوم کے معماروں کو ایسے کسی سیاہ دن کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، تاہم 20 جنوری کو باچا خان یونیورسٹی میں ہونے والے واقعے نے عوام کی ساری خوش فہمیوں پر یکسر پانی پھیر دیا۔ یوں لگا جہاں سے چلے تھے ایک بار مرتبہ پھر اسی دوہرائے پر آکھڑے ہوئے ، زائل ہوتا خوف اور دہشت ایک بار پھر سے دامن گیر ہوگیا۔
Army Public School Attack
یہ بات اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے کہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں ہونے والے بد ترین سانحے نے جس طرح پوری قوم اور خاص طور پر سیاسی اور عسکری قیادت کو ایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کیا اور بلاشبہ جس طرح پاک فوج اور پاکستان کی اعلیٰ سیاسی قیادت نے دہشت گردی کے خلاف عزم و ہمت کے ساتھ ملکر جو جرتمندانہ فیصلے کیے اور پاک فوج کے جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے انتہا پسندوں کی کمر توڑی ہے وہ یقینا قابل ستائش ہے ۔ مگر حالیہ دہشت گردی نے پوری قوم کے ذہنوں میں کئی سوال اٹھائے ہیں۔ تمام تر سیکورٹی انتظامات کے باوجود بھی اس قسم کی کارروائیوں میں آخر کوتاہی کہاں ہورہی ہے؟ کہاں کس نے غفلت کی جن سے دہشت گردوں کو موقع مل رہا ہے؟۔
یہ حقیقت ہے کہ جب انسان کسی مہلک مرض کا علاج طویل عرصے تک نہ کر وائے تو وہ مرض اتنی شدت اختیار کر جاتا ہے کہ پھر اس سے نجات پانا ناممکن نہ سہی پر مشکل ضرور ہوتا ہے اور علاج کے لئے ایک مدت درکار ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح دہشت گردی بھی ایک ایسا مہلک مرض ہے جو ہمارے ملک کی بنیادوں میں گھس بیٹھا ہے اور اسے اکھاڑ کے پھینکنا آسان نہ ہوگا۔ یہ تو وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے جسے بھجانے کے لئے نجانے کتنے ہاتھ جلانے پڑےں گے اور کتنے معصوموں کا لہواس آگ کوٹھنڈا کرنے میں کام آئے؟لیکن کیا ہماری جانیں اتنی ارزاں ہیں کہ یوں بلا وجہ ضائع ہوتی رہیں گی اور گھر گھر صف ماتم بچھتا رہے گا؟۔
Muslim
ایک عجیب سی شرمساری تو اس بات پر بھی ہوتی ہے کہ مارنے والے بھی مسلمان ہیں اور مرنے والے بھی کلمہ پڑھنے والے ہیں۔ اگر بیرون ممالک میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آجائے تو اس کا الزام طالبان اور مسلمانوں پر عائد کیا جاتا ہے۔ مگر یہاں تو عجیب صورتحال کا سامناہے کہ اپنے ہی اپنوں کی گردنوں پر چھریاں چلا رہے ہیں۔ کیا یہ لوگ مسلمان کہلائے جانے کہ قابل ہیں۔
کیا یہ نہیں جانتے کے ہمارے رب کے احکامات کیا ہیںاور ہمارے نبیﷺ کی کیا تعلیمات ہیں؟ کیا نبی آخرالزماں ﷺنے اپنے آخری خطبہ میں نہیں فرمایا تھا کہ ”دیکھو میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے پھرو“۔ پھر کیوں ہم ایک دوسرے کی جان کے درپے ہیں اور دنیا کی نظروں میں ہم نے خود اپنا تماشا بنا رکھا ہے۔ آخر ایسا کیا ہے جو دونوں طرف کے مسلمانوں کے درمیان نفرت اور اشتعال کو کم کرنے کے بجائے اور بڑ ھا رہا ہے۔ سازشوں کہاں ہورہی ہیں اور ہم ان کا شکار کیوں بن گئے ۔ اگر ہم اپنے ہی جیسے مسلمانوں کے خلاف یورپی ممالک کے لئے سہولت کار نہ بنتے تو آج ہمیں یہ قرض نہ چکانا پڑتا اور نہ ہماری اپنی قوم کے لوگ اپنوں کے خلاف کارروائیاں کرنے والوں کے معاون بنتے۔
Solution
ہمیں دہشت گردی کو روکنا ہوگا چاہیے اس کی کوئی بھی قیمت چکانا پڑے۔ اگر مسائل کا حل بندوق سے بڑھتا ہے تو اسے تدبیر اور تجویز سے حل کیا جانا چاہیے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ملک کو بچانے کے لئے سب کو ملکر سوچنا اور سمجھنا ہو گا۔ اپنی غفلتوں اور خامیوں کو سدھارے بغیر ملک کو ان مشکلات سے نجات نہیں دلائی جاسکتی۔ ورنہ ساری زندگی بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ چلتی رہی تو مطلوبہ نتائج حاصل کرنا ناممکن ہوگا۔ کیونکہ مرنے والے بھی مسلمان ہیں اور مارنے والے بھی غلطی کہاں سے ہو رہی ہے اور خامی کہاں پر ہے بس اسے جاننا بہت ضروری ہے۔