ملک میں فروغ پذیر متشدد قوتیں اور رمضان المبارک کا پیغام

Ramzan ul Mubarrak

Ramzan ul Mubarrak

تحریر : محمد آصف اقبال
ہر شخص امن و امان کا خواہاں ہے اور غنڈہ گردی، ظلم و زیادتی اور تشدد پسند نہیں کرتا۔یہی وجہ ہے کہ جب کسی ریاست میں سکون ا طمینان غارت ہونے لگتا ہے تو ریاست کے باشندگان برسراقتدار حکومت کے خلاف نہ صرف اپنا احتجاج و مظاہرے درج کراتے ہیں بلکہ وقت آنے پر اس حکومت کو تبدیل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔لیکن تصور کیجئے ایک ایسے مقام کی جہاں ایک حکومت سے تنگ آکر عوام دوسری حکومت کو اقتدار میں لائیں،اس کے باوجود آنے والی نئی حکومت اور اس کے ذمہ داران لا اینڈ آڈر کو کنٹرول نہ کرسکیں۔اس سے بھی آگے یہ کہ وہ نہ صرف لا اینڈ آڈر کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوں بلکہ اقتدار میں آنے کے بعد ماحول مزید خراب ہو جائے۔ان حالات میں لازماً یہ سوال یہ اٹھنا چاہیے کہ جو لوگ اقتدار حاصل کرنے سے قبل بڑے دعوے اور وعدیٰ کرتے آئے ہیں وہ اب کیوں ناکام ہورہے ہیں؟عموماً اس کی دووجوہات ہو سکتی ہیں۔ایک،وہ خود متشدد رہے ہیں،اپنے قول و عمل سے ثابت کرتے آئے ہیں کہ وہ تشدد کو پسند کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ان سے وابستہ افراد و گروہ اب اُنہیں طریقوں کو بااختیار حالات میں اپنانا چاہتے ہوئے ان تمام افکار و نظریات کے حاملین کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو ان سے وابستہ نہیںہیں۔لیکن چونکہ حکومت میں موجود مخصوص نظریہ کے حاملین قوانین کے بھی پابند ہیںلہذا وہ اس حالت میں نہیں کہ جس قول و عمل پر اقتدار سے قبل عمل پیرا تھے،آج بھی رہ سکیں۔ایسی صورت میں عموماً وہ راست تشدد میں خود شامل نہیں ہوتے۔اس کے باوجود وہ تمام افرادو گروہ جو ان کی پشت پر موجود ہیں اور جنہوں نے انہیں اقتدار تک پہنچانے میں دن رات ایک کیئے ہیں وہ ضرور اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ اقتدار سے قبل جس متشدد قول و عمل اور نظریہ سے وہ وابستہ رہے ہیں،آج جبکہ بلاواسطہ اقتدار کا وہ حصہ بن چکے ہیں ،مزید قوت و طاقت کے ساتھ تشدد کو جاری رکھیں،اس کے نئے نئے طریقہ اختیار کریں اور اپنے مخصوص مقصد و نصب العین میں وہ کسی طرح کامیاب ہو جائیں۔دوسری وجہ حکومتِ وقت کی اُن افراد اور گروہوں سے لاتعلقی ہے جس میں مخصوص یا عمومی طور پر لوگ تشدد کا شکار ہیں۔اُنہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ دوسروں کے ساتھ کیا کچھ ہو رہا ہے۔انہیں فکر ہے تو اس بات کی وہ کس طرح آنے والے وقتوں میں اقتدار کا حصہ بنے رہ سکتے ہیں۔اس صورت میں کچھ لیپا پوتی اورہمدردی کا اظہار تو ضرور کیا جاتا ہے اس کے باوجود وہ متشدد افراد اور ظلم و زیادتیوں میں شریک مجرمین ،فرد و واحد یا گروہ کے خلاف کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھاتے۔واقعہ یہ ہے کہ ان دونوں ہی صورتحال میں مستقل بنیادوں پر ریاست میں امن و امان برقرار نہیں رہ سکتا۔

ہندوستان میں آزادی کے بعد ہی سے مسلمان متشدد لوگوں کے نشانے پر رہے ہیں۔وہیں مسلمانوں کے ساتھ ملک کی وہ اقلیتیں بھی تشدد کا شکار ہوئی ہیں جو چاہتی ہیں کہ اپنی مخصوص شناخت اور تہذیب و ثقافت کو برقرار رکھیں۔ابتدا میں ہندوستان سے ہجرت کرنے والوں کا بڑے پیمانہ پر قتل عام کیا گیا۔وہیں ملک کی دوریاستیں ہریانہ اور پنجاب میں مسلمانوں کو بزور قوت اور ظلم و جبر مرتدبنایا گیا۔ان حالات میں یہ امیدیں وابستہ کی گئیں تھیں کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی مسلمان جلد ہی حاشیہ پر آجائیں گے۔خصوصاً آسام ،مغربی بنگال ،بہار اور اترپردیش کے مخصوص اضلاع میں یہ امیدیں رنگ بھی لائیں۔اس کے باوجود کہ آج جس سیاسی پارٹی کو نسبتاً کم درجہ میں متشدد سمجھا جاتا ہے وہی سیاسی پارٹی ابتدا میں ان ریاستوں میں اقتدار میں رہی اور ایک لمبی مدت خود کو سیکولر کہنے والی سیاسی جماعتوں نے ان ریاستوں میں حکومت سنبھالی ۔اس کے باوجود ملک کی اقلیتوں اور خصوصاً مسلمانوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تویہی وہ چار ریاستیں ہیں جہاں ہر درجہ اقلیتیں معاشی،تعلیمی اور معاشرتی اعتبار سے کمزور ترین رہی ہیں۔

اس کی ایک بڑی وجہ ان چار ریاستوں میں مسلمانوں کی آبادی ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلہ زیادہ ہونا بھی ہے۔وہیں اترپردیش ،بہار اور بنگال کا ایک طویل مدت تک ملکی سیاست میں خصوصی حصہ داری بھی ہے۔لہذا کوشش کرنے والوں نے اس انداز سے ان ریاستوں میں منصوبہ بندی کی کہ یہاں سے مسلمانوں کے مخصوص خاندان و افراد گرچہ ملکی و ریاستی سطح پر سیاست و حکومت میں موجود رہیں،اس کے باوجود عام مسلمانوں کو کسی بھی سطح پر نہ اٹھنے دیا جائے ۔دوسری جانب متشدد افکار و نظریات کے حاملین نے چند دیگر ریاستوں کو بطور تجربہ گاہ استعمال کیا اور وہ وہاں بھی کامیا ب رہے۔ان ریاستوں میں خصوصیت کے ساتھ گجرات اورراجستھان پہلے درجہ میں ہیں تو وہیں مدھیہ پردیش ،چھتیں گڑھ اور جھارکھنڈ دوسرے درجہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔مزید ملک کی ایک اور بڑی ریاست مہاراشٹر ہے وہاں بھی ایک مخصوص متشدد نظریہ سے وابستہ سیاسی جماعت اور اس کے ہمنوابیسویں صدی کے نصفسے مصروف عمل ہیں۔اس طرح دیکھا جائے تو ملک کا آدھے سے زیادہ یا ایک تہائی حصہ ان ریاستوں پر مشتمل ہے جہاں متشدد نظریہ اور اس سے وابستہ افراد و گروہ حکومت کا حصہ رہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔اب رہیں وہ ریاستیں جن کے بارے میں گمان ہے کہ وہ متشدد نظریات کے حاملین سے محفوظ ہیں،تو حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔دوسری جانب اس کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ریاستیں ملکی سیاست میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کرتیںلہذا وہ قدرے محفوظ گمان کی جاتی رہی ہیں۔اس کے باوجود ان ریاستوں میں بھی اقلیتوں اور خصوصاً مسلمانوں کا دائرہ تنگ ہوتا جا رہا ہے اور وہ اس سے بخوبی واقف بھی ہیں۔

گفتگو کے اس حصہ میں ہم کہنا چاہیں گے کہ گرچہ متشدد نظریات کے حاملین بظاہر بڑھتے نظرآرہے ہیں۔اس کے باوجوداگر دیکھا جائے تو تقسیم ہند کے وقت مسلمانوں کا ایک بڑا سوچنے سمجھنے والا اور سماجی سطح پر شناخت رکھنے والا طبقہ ہجرت کرگیا تھا۔ہندوستان میں رہنے بسنے والے مسلمانوں کی اکثریت معاشی،تعلیمی اور معاشرتی اعتبار سے کمزور ترین حیثیت رکھتی تھی۔ان بچے کچے رسم ورواج کے پابند مسلمانوں میں دینی شعور کی حد درجہ کمی تھی۔وہیں دوسری جانب منظم و منصوبہ بند انداز میں مسلمانوں پر ظلم و زیادتیوں کے واقعات رونما ہوتے رہے۔اس سب کے باوجود آج کا ہندوستانی مسلمان باالمقابل آزادی کے ابتدائی دور سے بہت حد تک بہتر حالات میں موجود ہے۔ہاں یہ صحیح ہے کہ آج بھی مسلمان ملک کی دیگر اقوام کے مقابلے معاشی ،تعلیمی اور معاشرتی بنیادوں پر کمزورہیں۔لیکن اگر مثبت انداز میں تجزیہ کیا جائے تو یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ مسلمان وہ قوم ہے جو اندھیروں کو چیر کر روشنی تلاش کرتی ہے۔

سخت ترین حالات میں پروان چڑھتی ہے۔اوراس کو اپنی بقا و تشخص کا احساس اسی وقت جاگزیں ہوتا ہے جبکہ وہ مٹائی جا رہی ہو۔بصورت دیگر پر سکون حالات عموماً یہ لوگ کمزور ہوئے ہیں،اپنے دین اور اپنے عقیدے میں کمزور پڑتے نظر آئے ہیں،اور اُن اقوام کی سازشوں کا زیادہ شکار ہوئے ہیں جو ان پر تسلط برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ٹھیک اسی طرح کی صورتحال مسلمانوں کی اُن ممالک میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں آج مسلمانوں کے ہاتھ میں اقتدار ہے اس کے باوجود وہ اسلامی شعائر اور اسلامی نظام سے کوسوں دور جاچکے ہیں۔لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ظلم و زیادتیوں پر خاموشی اختیار کی جائے یا انہیں دستوری، قانونی اور آئین کی روشنی میں روکا نہ جائے۔ضروری ہے کہ اپنے و دیگر لوگوں پر جاری ظلم کے خلاف آواز اٹھائی جائے اس یقین کے ساتھ کہ مسلمان کے معنی ہی امن و امان کے پیامبر کے ہیں۔وہ جہاں رہیں گے نہ وہ ظلم کریں گے،نہ ظالم انہیں پسند آئیں گے اور نہ ہی وہ ظالموں کا ساتھ دیں گے۔یہی پیغام اس ماہ رمضان المبارک کا بھی ہے جو چند دنوں میں شروع ہوا چاہتا ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ رمضان المبارک کی برکتوں اور فضیلتوں سے امت مسلمہ ہند اور دنیا کے ہر مسلمان کو فیض یاب ہونے کی توفیق بخشے،آمین یا رب العالمین!

Mohammad Asif Iqbal

Mohammad Asif Iqbal

تحریر : محمد آصف اقبال
[email protected]
maiqbaldelhi.blogspot.com