درندگی کا، اذیت کا رقص جاری ہے میرے وطن کی فضائوں پہ خوف طاری ہے مانا کہ دشمن کی یہ ضرب کاری ہے کسے ہے معلوم کل کو کس کی باری ہے
وطن عزیز میں گزشتہ چند ماہ کے دوران دہشت گردوں کے حملوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ روز تیمر گرہ میں خارجیوں سے جھڑپ میں ہماری پاک فوج کے ایک میجر علی سلمان سمیت 4فوجی جوان جام شہادت نوش کر کے اپنی جنتوں میں اللہ کے مہمان بن گئے۔آخر اس دہشت گردی کے بڑھنے کے اسباب کیا ہیں؟
جب سے ریاستی اداروں نے دہشت گردوں کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے۔ تو تخریب کار عناصر پریشانی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ پاکستانی قوم کو آپس میں لڑوانے کے لئے مخصوص مسالک کے لوگوں کو استعمال کیا جارہا ہے۔دوسرے مذاہب کے لوگوں کی عبادت گاہوں پر حملے کئے جا رہے ہیں۔ ان حملوں کا مقصد دہشت گردی کی خلاف لڑی جانے والی ملک گیر جنگ کے دائرہ کار کو ایک مخصوص طبقہ تک محدود کرنا ہے۔
ہفتے میں ایک دن کسی نہ کسی شہر میں خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے۔ معصوم لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ریاست اور اس سے متعلقہ ادارے روایتی بیانات جاری کرنے کے بعد کسی نئے حملے کا انتظار کرنے لگ جاتے ہیں۔
کوئی روکے کہیں دست اجل کو میرے لوگ مرتے جا رہے ہیں
پشاور، کراچی، اور اب پھر لاہور کو خون میں نہلا دیا گیا۔ بے چہرہ دشمن اب اپنی بقاء کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔ ہر شہر میں حملے کئے جا رہے ہیں ۔ آج نائن الیون کے بعد شروع ہونے والی بے چہرہ جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ دشمن اپنے سارے ہتھیاروں سمیت میدان میں اتر آیا ہے۔ اس امتحان سے سر خرو ہو کر نکلنا اب پوری قوم کی عزت کا مسئلہ بن چکا ہے۔
اب ہمیں ماضی میں کی گئی غلطیوں کو بھلا کر اس دورخی پالیسی کو خیر آباد کہہ دینا چاہیے۔ اب اپنے دشمن کا تعین کرنے میں قوم کو کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے۔
ہمارے ہزاروں لوگوں کی جان لینے والے سازشی عناصر کو اب مزید مہلت نہیں دی جاسکتی۔
بہت ہو چکییں،آتش و آہن کی بر ساتیں، بہار رت میں لہو کی گھاتیں، رات دن خود کش دھماکے، اعصاب شکن سناٹے، اب علی الا علان جنگ ہوگی قوم کی بقاء کی جنگ ، دشمن کے فنا کی جنگ۔ اے خدائے زرگ و برتر دانا و بینا منصف و اکبر شہید گن گن کے میری آنکھیں تو تھک گئی ہیں تیری زمین پر میرے زمانے نے تجھ سے مانگا تو صرف اتنا کہ لاش ٹکڑوں میں گھر نہ آئے
آج سے سولہ سال قبل بظاہر امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرکے جنرل مشرف نے جو دورخی پالیسی اپنائی تھی۔ اس کے ثمرات آج ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ آج امریکہ اور عوام دونوں ہی حکومت پر اعتبار نہیں کرتے ۔
نفرت کے جو بیج امریکیوں نے افغانستان میں بوئے تھے۔ آج ان کا خمیازہ معصوم پاکستانی بھگت رہے ہیں ۔ تاریخ میں یہ بات لکھی جا چکی ہے۔ کہ نائن الیون کے بعد اختیار کی گئی حکومتی پالیسیوں کی کوکھ سے ٹی۔ٹی۔پی نے جنم لیا۔ مجاہدین تقسیم ہو گئے اور مسلمان آپس میں لڑنے لگے۔
امریکہ نے عراق اور افغانستان میں ایسے حالات پیدا کر دیے کہ مسلمان تقسیم ہو گئے۔ عرب بہار کے نام پر سارے عالم اسلام کو خانہ جنگی کی آگ میں دھکیل دیا گیا۔ کل تک جن ممالک سے مجاہدین کو اخلاقی اور مالی امداد ملتی تھی۔ آج وہ ممالک مشکلات کے بھنور میں پھنس چکے ہیں۔
عراق ، شام، مصر، لیبیا، تیونس، افغانستان، پاکستان اور ترکی جتنے بڑے ممالک ہیں۔ ان سب ممالک کو اپنے اپنے مسئلوں میں پھنسا دیا گیا۔ تاکہ انہیں دوسرے اسلامی ممالک کا ساتھ دینے کا موقع نہ مل سکے۔
وطن عزیز میں دھماکوں کا بڑھنا اور تکفیری عناصر کا زور پکڑنا یہ سارے عوامل اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اب پاکستان میں خانہ جنگی کروانے کے منصوبے بن رہے ہیں۔ اس بے چہرہ جنگ کو سارے ملک میں پھیلا دیا گیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تخریب کار عناصر کا مقابلہ عسکری اور نظریاتی دونوں محاذوں پر کیا جائے۔
قومی سلامتی کے ضامن اداروں کو چاہیے کہ وہ سیاسیات چھوڑ کر دہشت گردوں پر توجہ دیں۔ دہشت گردوں اور بھتہ خوروں کے اڈوں کو ختم کریں ، نسلی و لسانی اور مذہبی بنیادوں پر دہشت پھیلانے والے عناصر میں کوئی تخصیص نہ رکھی جائے۔
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے سب ٹھکانوں کی شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
حکومت ہر حادثے کے بعد ایک کمیٹی بنا دیتی ہے۔ جس کی رپورٹ یا تو تیار ہی نہیں ہوتی یا اس پر عمل نہیں ہوتا ۔ دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کے ہمیں ایک طویل جنگ لڑنی پڑے گی۔
قوموں کے دامن پہ لگے داغ شہیدوں کے خون سے دھلتے ہیں۔ نا اہل حکمرانوں کی غلطیوں کا کفارہ پوری قوم کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ ایک لمحے کی غلطی کسی قوم کا مستقبل بر باد کر دیتی ہے۔اب یہ روش بدلنے کی ضرورت ہے۔
میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں میرے شہر جل رہے ہیں میرے لوگ مر رہے ہیں کوئی اور تو نہیں ہے پس خنجر آزمائی ہم قتل ہو رہے ہیں ہمیں قتل کر رہے ہیں
قوم کو ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ اب ان بزدلوں کا یوم حساب قریب آگیا ہے۔ اب انصاف کا سویرا ہونے ہی والا ہے۔ امن کا سورج طلوع ہونے والا ہے۔ ان شاء اللہ۔