تحریر : اختر سردار چودھری طالب علم اور اس کی اہمیت کیاہے، اس بارے جاننے کے لیے ہم کو علم کی اہمیت کو سمجھنا ہو گا ۔اسلام کی سب سے پہلی تعلیم اور قرآن مجید کی سب سے پہلی آیت جو اللہ نے اپنے نبی ۖپر نازل فرمائی وہ تعلیم کے متعلق تھی، ارشادِ باری تعالیٰ ہے ”پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، تو پڑھتا رہ، تیرا رب بڑ ا کرم والا ہے ،جس نے قلم کے ذریعے (علم ) سکھایا، جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔ ” (سورةعلق)”اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں ،جو علم رکھتے ہیں۔” (سورةفاطر)علم وہ لازوال دولت ہے کہ جس کی بنیاد پر حضرت آدم علیہ السّلام کو مسجود ِملائکہ بنایا گیا۔علم کی بہت ساری اقسام ہیں ،مختصر جتنی بھی اقسام ہیں اگر کوئی ان کو پڑھتا ہے، سیکھتا ہے، سمجھتا ہے اور ان کا مقصد فلاح انسانیت ہے تو اسے علم نافع کہا جاتا ہے ۔علم حاصل کرنے والے کو طالب علم کہا جاتا ہے ۔طالب علم، کا لفظ جب استعمال کیا جاتا ہے ،تو اس سے مراد کسی یونیورسٹی، کالج، یا اسکول میں پڑھنے والا ہی لیا جاتا ہے ، جس میں مدارس کے طالب علم بھی شامل ہیں۔
حضرت عمر بن خطاب نے ابی بن کعب سے دریافت کیا کہ طالب علم کون ہے؟ توآپ نے کہا جوا پنے علم کے مطابق عمل کرتا ہے۔علم کے مطابق عمل کرنے سے علم پختہ ہوتا ہے، جس کی واضح مثال صبح و شام اورنماز وغیرہ کی دعائیں ہیں کہ انسان انہیں بچپن میں یاد کرتا ہے، لیکن جب تک ان کا اہتمام کرتا رہتا ہے تو وہ انہیں بڑھاپے تک بھول نہیں پاتا، علم کے مطابق عمل نہ کرنے سے صرف یہی نہیں کہ علم ضائع ہو جاتا ہے، بلکہ وہ علم اس کے لئے قیامت کے دن وبال بھی بن سکتا ہے۔
حضرت علی فرماتے ہیں کہ جس نے مجھے ایک بھی حرف سکھایا گویا کہ اس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا۔آپ فرماتے ہیں کہ علم عمل کو آواز دیتا ہے، اگر علم عمل پاتا ہے تو رکتا ہے ورنہ وہ بھی رخصت ہو جاتا ہے علم کے مطابق عمل نہ کرنے والے طالب علم کے متعلق مجدد الف ثانی سید احمد سرہندی فرماتے ہیں کہ بے عمل طالب علم پارس کے اس پتھر کی طرح ہے جو دوسروں کو تو سونا بناتا ہے، لیکن خود پتھر ہی رہتا ہے حصول علم کے لئے اساتذہ کا ادب و احترام اور عزت و توقیر ناگزیر ہے۔ نبی کریمۖ نے فرمایا کہ جن سے تم علم حاصل کرتے ہو، ان کے ساتھ تواضع و انکساری کے ساتھ پیش آؤ۔
17 November Student Day
طالب علم کی تعمیر و ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے والی اور مقصد کے حصول میں ناکامی کا منہ دکھانے والی سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والی چیز سستی ا ور کاہلی ہے، کاہلی و سستی زہر کے اس قطرہ کی طرح ہے جو قابل استعمال چیز کو ناکارہ بنا دیتی ہے،کاہلی و سستی ایک ذہین اور کامیاب طالب علم کو ناکامی سے ہمکنار کرتی ہے۔طالب علموں کا عالمی دن ہر سال 17نومبر کو پاکستان سمیت پوری دنیا میںمنایا جاتاہے۔اس دن کا اہم مقصد طلباء کے کردار اور ان کی اہمیت اور ملک میں معیاری تعلیمی نظام کو فروغ دینے کی ہر ممکن کوشش کرناہے۔ پہلی مرتبہ 1941ء میں لندن میں انٹرنیسنل سٹوڈنٹس کونسل کے زیرِ اہتمام یہ دن منایا گیا۔ اس دن کی تاریخ کچھ یوںہے کہ 1939ء میں دوسری جنگ عظیم کے آغاز میں جب نازی فوج نے ، چیکوسلواکیہ ،پر حملہ کیا اور آمریت کا نفاذکردیا تو وہاں کی طلباء تنظیموں نے اپنی آزادی اور جمہوریت کے لئے اس غاصبانہ قبضے کے خلاف احتجاج اور مظاہرے کئے۔ جس پر فوج نے بہت سارے طلباء کو گرفتار کر لیا 9 طلباء کو پھانسی دے دی۔17 نومبر ان طالب علموں کی یاد میں بھی منایا جاتا ہے۔
طالب علم مستقبل کے معمار ہوتے ہیں، ملک وملت کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔آنے والے دور میں ملک کی ترقی و خوشحالی ان ہی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔طالب علم کسی بھی ملک ،قوم،معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ،کیونکہ ان کے ہاتھوں میں ملک و قوم کی زمام کار ہوتی ہے ۔آج کو ملک و قوم کی مذہبی و سیاسی رہنمائی ،رہبری فرما رہے ہیں، وہ ماضی میں طالب علم تھے اور جو آج کے طالب علم ہیں، انہوں نے آنے والے دنوں میں ملک و قوم کی باگ دوڑ سنبھالنی ہے ۔اس لیے علم کے متلاشی یا سیکھنے کے عمل سے گزرنے والے، ہر شخص کو طالب علم کہا جاتا ہے ۔بیشتر ممالک میں عموماً سیکھنے کا عمل پانچ سال کی عمر سے شروع ہوتا ہے ، جب بچے کو ابتدائی اسکول ،مدرسہ ،کسی ہنر کی ورکشاپ میں پڑھنے ،سیکھنے کے لئے داخلہ دلایا جاتا ہے ۔ اب تک ہم نے صرف دو باتیں کی ایک یہ کہ علم سے کیا مراد ہے، دوم طالب علم کسے کہتے ہیں ۔طالب علم کو علم سیکھانے والے کو معلم یا استاد کہا جاتا ہے اور جس نصاب یا نظام کے تحت وہ علم حاصل کر رہا ہے ۔اس کا بھی گہرا تعلق طالب علم سے ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستا ن میں 69سال میں ہماری کسی بھی حکومت نے تعلیم کو وہ اہمیت نہیں دی جو اہمیت دی جانی چاہئے تھی ۔ اس لئے تعلیمی لحاظ سے پاکستان کا شمار دنیا کے پست ترین ممالک میں ہوتا ہے ۔ ہمارے تعلیمی اخراجات بجٹ حقیت میں دو فیصدسے بھی کم ہیں، ہمارے ہاں اساتذہ کی تربیت کا معقول انتظام نہیں۔ نظامِ تعلیم میں غریب اور بے سہارا بچوں کیلئے صرف مذہبی مدارس ہیں ۔ انگلش میڈیم سکولز میں اسلامی تعلیم کا فقدان ہے ۔ اور اسلامی مدارس میں جدید تعلیم کا فقدان ہے سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت ناگفتہ بہ ہے ۔ اکبر اِلٰہ آبادی فرماتے ہیں کہ تعلیم وہ خوب ہے جو سکھلائے ہنر اچھی ہے وہ تربیت جو روحانی ہے۔
Pakistani School Students
ایک طالب علم کے لئے دن بھر کی کیا مصروفیت ہونی چائیے؟ ایک طالب علم کو صبح سویر ے اٹھ کر نماز فجر ادا کرنی چاہئے ۔اس سے پہلے ورزش،چہل قدمی کریں ،نہا کر تھوڑی دیر مطالعہ کریں ۔اس حوالے سے میں مثال دوں گا، پاکستان کے ممتاز ماہر تعلیم جامعہ ہمدرد کے بانی حکیم محمد سعید شہید ، طبیب اور ادیب ،ساری عمر رات دس بجے سو جایا کرتے تھے اور علی الصباح چار بجے تہجد سے قبل اْٹھ جایا کرتے تھے ۔ حتیٰ کہ جب وہ سندھ کے گورنر بنے تب بھی اسی نظام الاوقات کی پابندی کرتے رہے ۔ اس کے علاوہ پاکستان کے وہ واحد طبیب تھے ،جو اپنے مقررہ شیڈول کے مطابق پاکستان کے مختلف شہروں میں نماز فجر کے بعد کلینک کیا کرتے تھے ۔ کوشش کریں کہ رات دس ساڑھے دس تک لازماً سو جائیں اور چھ تا سات گھنٹوں کی نیند کے بعدپانچ ساڑھے پانچ بجے اْٹھ جائیں۔موسم کے حساب سے وقت بدل سکتا ہے۔
ایک طالب علم کا مقصد تعلیم کیا ہونا چاہئے ۔خود آگاہی یاتلاش حقیقت ہی تعلیم کا اصل مقصد ہے، لیکن اب مادیت یا دولت نے اس کی جگہ لے لی ہے ،جس سے معاشرے میں خود غرضی سرائت کر گئی ہے اور آج طلبہ کو سماج کے مسائل سے کوئی واسطہ نہیں۔تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ ایسا فرد بننا جو دین و دنیا میں کامیاب ہو سکے ۔ جو دوسروں کے لیے زیادہ سے زیادہ نافع ہو جس کا راستہ حقوق العباد سے ہو کر گزرتا ہے اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں ۔۔اس جہاں میںہے۔۔ زندگی کا مقصد اوروں کے نام آنا۔۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آپ اپنے ملک کے تعلیمی نظام سے خوش ہیں؟جواب یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایک ہی وقت میں بہت سے نظام تعلیم رائج ہیں ۔کوئی ایک نظام تعلیم نہیں ہے ۔یہ ہی حال دینی مدارس کا ہے ۔اتنے نظام تعلیم ہوں تو ملک کے مسقبل کی آبکاری کیا ہونی ہے۔
اس لیے ارباب اختیارات سے گزارش ہے کہ ملک میں ایک ہی نظام تعلیم رائج کیا جائے ۔ہمارے ملک میں تعلیمی نظام کو کس طرح بہتر کیا جاسکتا ہے ؟اس پر علماء و دانشوروں کی سینکڑوں تحاریر دستیاب ہیں ۔سب سے پہلے تو تعلیم میں بیرونی دبائوکا خاتمہ کیا جانا چاہئے ۔اردو زبان میں نصاب ترتیب دیا جائے ۔ اپنی قومی زبان میں تعلیم کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا ۔پورے ملک میں ایک نصاب تعلیم ہو ،جو پرائیویٹ ادارے ہیں وہ بھی اپنے سکول و کالج میں اسی نصاب کے ذریعے تعلیم دیں ۔ملک میں تعلیمی معیار کی تنزلی کی وجہ اس شعبے میں بہتری لانے کے لیے حکومتوں کی عدم دلچسپی ہے۔