اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے توہین عدالت کیس میں ایک بار پھر عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لی جسے عدالت نے فی الحال قبول نہ کرتے ہوئے انہیں پیر تک تحریری جواب داخل کرنے کی ہدایت کر دی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں وزیراعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں فردوس عاشق اعوان عدالت کے روبرو پیش ہوئیں۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ میرے بارے میں کچھ بھی کہیں، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، بارکے سینئر عہدیدار نیاز اللہ نیازی کی درخواست پر دھرنے میں گرفتار افراد کی درخواستیں اتوار کو سنی گئیں اور اس عدالت نے دھرنے کے دوران گرفتاریوں سے روک تھا۔
فردوس عاشق نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ میں نے دھرنے کے بعد پی ٹی آئی جوائن کی تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے صرف قانون کے مطابق چلنا ہوتا ہے، عدالت نے کسی ایک فریق کی حمایت نہیں کرنی ہوتی، ہر جج نے اللہ کو حاضر ناظر جان کر حلف اٹھا رکھا ہے، سنگین جرم یا دہشت گردی کے ملزم کو بھی فیئر ٹرائل کا حق ہے۔
دورانِ سماعت فردوس عاشق اعوان نے ایک بار پھر عدالت سے غیر مشروط معافی مانگی جس پر عدالت نے انہیں تحریری جواب داخل کرنے کی ہدایت کی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالتوں کو پریشرائز کرنے کے لیے وزرا نے کہا کہ ڈیل ہو گئی ہے، اس پر معاون خصوصی نے کہا کہ 20 سالہ کیریئر میں کبھی عدلیہ سے متعلق بات نہیں کی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ہدایت کی کہ ہفتے تک تحریری جواب داخل کرا دیں پھر پیر کو سماعت رکھ لیتے ہیں۔
فردوس عاشق اعوان کے وکیل نے آئندہ سماعت پر حاضری سے استثنا کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ حاضری سے استثنا نہیں دے رہے، ان کے یہاں آنے کا اور بھی فائدہ ہے۔
بعد ازاں عدالت نے فردوس عاشق اعوان کی معافی فی الحال قبول نہ کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے پیر تک ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی اسلام آباد ہائیکورٹ سے طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست پر فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے عدالت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ایک ملزم کو خصوصی رعایت دینے کے لیے شام کے وقت عدالت لگائی گئی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے فردوس عاشق اعوان کے بیان کا نوٹس لیتے ہوئے انہیں شوکاز نوٹس جاری کیا تھا جس پر معاون خصوصی نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگی تھی اور عدالت نے وہ معافی قبول کرتے ہوئے شوکاز نوٹس واپس لے لیا تھا۔