اسلام آباد (جیوڈیسک) چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔
عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا الیکشن کمیشن کو حکم کی تعمیل نہ ہونے پر تشویش تھی، عمران خان کے وکیل نے مبینہ توہین آمیز درخواست واپس لے لی، پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو با اختیار بنانے کیلئے کردار ادا کیا۔
عمران خان کی کمرہ عدالت میں موجودگی میں وکیل بابر اعوان سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ معافی ما نگیں گے؟، بابر اعوان نے کہا کہ ہم نے جواب جمع کرا دئیے، اپنے الفاظ واپس لے چکے ہیں، انہیں ہی معافی تصور کیا جائے۔ الیکشن کمیشن نے موقف مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کیا الفاظ واپس لینے سے بات ختم ہوجاتی ہے۔
عمران خان کو اپنے دستخطوں کے ساتھ تحریری معافی مانگنی ہوگی۔ عمران خان نے کمرہ عدالت میں ہی تحریری معافی نامے پر دستخظ کیے اور وکیل معافی نامہ کمیشن کے سامنے پیش کر دیا۔ الیکشن کمیشن کے حکم پر عمران خان نے 20 ستمبر کو کراچی میں کمیشن سے متعلق توہین آمیز بیان پر بھی تحریری معافی مانگی۔
عمران خان روسٹرم پر آئے اور کہا ان کی تنقید کسی کو نیچا دیکھانے کے لیے نہیں، ملک کی بہتری کے لیے ہے۔ کمیشن پر تنقید کا مقصد اس کی ساکھ کو بہتر بنانا تھا۔ سارا معاملہ صرف غلط فیمی کی بنیاد پر کھڑا ہوا۔ انہوں نے کہا 21 سال سے عدلیہ اور انصاف کے لیے جدوجہد کی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ انہیں بھی وکالت کرتے ہوئے 47 سال ہو گئے، ایک سال سے چاہتے تھے یہ معاملہ حل ہو جائے۔ الیکشن کمیشن نے عمران کی معافی قبول کرتے ہوئے اکبر ایس بابر کی دونوں درخواستیں نمٹا دیں۔
واضح رہے الیکشن کمیشن نے عمران خان کا جواب مسترد کرتے ہوئے اظہار وجود کا نوٹس جاری کیا تھا۔ توہین عدالت کیس میں الیکشن کمیشن نے دو ہفتے قبل عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے، عمران خان کے خود پیش ہونے کے اعلان کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے منگل کو عمران خان کے وارنٹ گرفتاری معطل کر دیئے تھے۔ الیکشن کمیشن ایک بار عمران خان کے قابل ضمانت اور ایک بار ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر چکا ہے۔
خیال رہے تعصب کے الزام پر توہین عدالت کیس جنوی 2017 میں اکبر ایس بابر کی درخواست پر شروع ہوا تھا، 14 سے زائد سماعتوں میں عمران خان نے الیکشن کمیشن سے غیر مشروط معافی نہیں مانگی۔ الیکشن کمیشن عمران خان کو 3 بار طلب کر چکا ہے۔