علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا تھا کہ سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا، لیا جائے گا تجھ سے کا م دنیا کی امامت کا مگر ہم جمہوری بچوں نے کمال یہ کیا کہ ہم نے سبق پڑھ لیا ملک کو لوٹنے کا، عوام کو بیوقوف بنانے کا، بیرون ممالک جائیدادیں خریدنے کا،جعل سازی کا، کرپشن کا، جھوٹ اور فریب کا،ملک پر قبضے کا، عوام کو محکوم رکھنے کااور غداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹنے کا رہی سہی کسر ان لٹیروں نے پوری کردی جو عوام کی پیٹھ پر سوار ہوکر آئے اور پھر عوام کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کر گدھ کی طرح اپنے ہی وطن کو نوچ ڈالا ملک کی غریب عوام کے لوٹے ہوئے پیسوں سے کبھی سرے محل خریداگیا تو کبھی لندن میں مہنگی ترین جائیدادیں خریدی گئی اور دنیا بھر میں ناجائز پیسوں سے کاروبار کیے جس نے اس ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کی کوشش کی تو اسے بھرے جلسہ میں گولیاں مارکرشہید کر دیا گیا جس نے ملک کو ایٹمی قوت بنایا اسے پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا تو کبھی پھانسی لگانے کی سزا سنا دی گئی کیا۔
ملک میں غریب لوگوں کے لیے کام کرنا جرم بن گیا ہے کیاچوروں، لٹیروں اور ڈاکوؤں کو ہی اس ملک میں پروٹوکول دیا جائیگا اور غریب بھوک اور افلاس سے تنگ آکر یونہی اپنے بچوں کے ہمراہ نہروں میں چھلانگیں لگاتے رہیں گے کیا عوام کا پیسہ کھانے والے بھی کبھی پھانسی لگ پائیں گے تاریخ میں وہ لیڈر آج بھی زندہ ہیں جنہوں نے عوام کو زندہ رہنے کی سہولیات فراہم کی بے شک انہیں لٹکا دیا گیااسی لیے جنرل مشرف کوبھی پھانسی دی جانی چاہیے کیونکہ وہ دور ترقی کا سنہری دور تھا جب ملک میں پیسے کی فراوانی تھی پوری ایک موٹر سائیکل خریدنے کی سکت نہ رکھنے والا بھی گاڑی کا مالک بن گیا 20روپے فی یونٹ بات کرنے والا بھی مفت موبائل سم لیکر گھنٹوں اپنے پیاروں سے بات کرنے لگ گیا،قرضوں میں ڈوبی ہوئی معشیت وہاں تک جا پہنچی کہ پاکستان دنیا بھر میں بینکنگ میں تیسرا منافع بخش ملک بن گیا جسکی معیشت 1999 میں دیوالیہ ہو رہی تھی وہ 2005 کے اعدادوشمار کے مطابق مجموعی پیداوار جی ڈی پی 65 ارب سے بڑھ کر 125 ارب ہو گئی۔
ملک کا مجموعی قرض 39 ارب سے کم ہو کر 32 ارب پر آ گیا 2005 میں فی کس آمدنی 460 ڈالر سے بڑھ کر 800 ڈالر ہوئی اور ہم نچلے درجے کے ملک کی بجائے اوسط درجے کی آمدنی والے ملک میں شمار ہونے لگے جنرل مشرف کو پھانسی دی جانی چاہیے کیونکہ ان کے دور میں خطِ غربت کی شرح میں دس فیصد کمی واقع ہوئی اور خطِ غربت سے نیچے کی زندگی بسر کرنے والوں کی شرح جو چونتیس اعشاریہ چھیالیس فیصد تھی وہ کم ہوکر چوبیس فیصد رہ گئی ہے جنرل مشرف کو پھانسی دی جانی چاہیے کیونکہ وہ چند سالوں میں پاکستان کے غیر ملکی ذخائر کو صرف 700 ملین ڈالر سے 17 ارب ڈالر تک لے گئے اسے پھانسی دی جانی چاہئے کیونکہ آئی ٹی کی برآمدات بڑھ کر 2 ارب ڈالر ہوگئیں اور 90 ہزار نئی ملازمتیں پیدا ہوگئیں۔ 1999 میں پاکستان کے صرف انتالیس شہر انٹرنیٹ سے اور 40 شہر اور قصبے فائبر اپٹک کے زریعے رابطے میں تھے2006 کے اعدادوشمار کے مطابق ایک ہزار قصبے اور دیہات انٹرنیٹ سے منسلک ہو گئے فون جسے امراء ہی استعمال کر سکتے تھے 1999 میں پاکستان کی 2.9 فیصد آبادی کو ہی میسر تھا لیکن جنرل مشرف نے اسے پاکستان کے ہر گھر تک پہنچا دیا سال 2006 میں 3 کروڑ سیل فون فروخت ہوئے،پاکستان میں 2005 میں سرمایہ کاری 1.5 ارب ڈالر رہی یعنی 1999 سے 500 فیصد زائد اضافہ پاکستان کی ترسیل زر 2005 میں 4 ارب ڈالر سے زائد ہو گئی یعنی 1999 کے مقابلے میں 480 فیصد اضافہ ہوا اسے پھانسی دی جانی چاہئے کیونکہ صرف سی این جی سیکٹر نے ہی 7 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور 50ہزار نئی ملازمتیں پیدا کیں اسے پھانسی دی جانی چاہئے۔
کیونکہ اس نے ملک کی میڈیاانڈسٹری میں انقلاب برپا کردیانئے چینلز کو لائسنس دیے گئے اخبارات کے ڈیکلریشن کا طریقہ آسان بنایا اور پھر کسی پابندی کے بغیر میڈیا کو آزادی دی جی ہاں اسے پھانسی دی جانی چاہئے کیونکہ ٹیلی مواصلات کے شعبے میں 10 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی گئی جس نے 10 لاکھ سے زیادہ ملازمتیں پیدا کیں۔ اسے پھانسی دی جانی چاہئے کیونکہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں اس وقت 2000فیصد اضافہ ہوا تھا جو 700 سے بڑھ کر 15ہزار ہو گیا تھا اسے پھانسی پر چڑھایا جائے کہ اس نے شاہراہوں کا جال پاکستان کے دور دراز علاقوں میں پھیلایا جنرل مشرف پھانسی کا ہی حقدار ہے کیونکہ اس نے ملک میں تعلیم اداروں کا جال بچھایا کوئٹہ میں سردار بہاؤالدین خان ویمن یونیورسٹی قائم کی بنوں میں سائنس اینڈ ٹکنالوجی یونیورسٹی قائم ہوئی، ہزارہ یونیورسٹی قائم ہوئی، ملاکنڈ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی، جامعہ گجرات کا قیام عمل میں آیا، پاکستان کی ورچوئل یونیورسٹی قائم ہوئی، پشاور کی سرحد یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی۔
اسلام آباد میں نیشنل لاء یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی، اسلام آباد میں میڈیا یونیورسٹی قائم ہوئی جبکہ انہی کے دور میں ملک میں معاشی ترقی کا سفر اتنی تیزی سے جاری تھا کہ اسکی مثال پچھلے 73سالوں میں بھی ڈھونڈیں تو نہیں ملے گی ان معاشی اقدامات پہ جنرل مشرف کی سزا صرف سزائے موت ہے کیونکہ وڈیروں،جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے سامنے کبھی بھی غریب زبان نہیں کھول سکتا اپنا حق نہیں مانگ سکتا جو مانگتا ہے اسے زندہ آگ کی بھٹیوں میں پھینک دیا جاتا،کتوں کے آگے ڈال دیا جاتا اور سرے بازار قتل کردیا جاتا تھا مگر مشرف نے انہی کو بولنا سکھا دیاحق پر ڈٹ جانا سکھا دیا اور عوام کو وہ سب کچھ دیاجو انہوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا ہوگا اس لیے اسے تختہ دار پرلٹکانے کے ساتھ ساتھ اسکی لاش کو تین دن ڈی چوک میں بھی ضرور لٹکایا جائے۔