تحریر : انجینئر افتخار چودھری میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کچھ نہیں ملنے والا مگر ہر بار ایک چھوٹی سی امید پیدا ہوتی ہے۔جسے ہم فتح سمجھ لیتے ہیں۔اندھی عدالتوں کے اندھے فیصلے پاکستان کے مستقبل پر ایک خطرناک سوال بن کر کودتے ہیں۔قوم کو ایک امید تھی بلکہ میں تو یہ کہتا تھا کہ فیصلہ جو بھی ہو وہ آنا چاہئے اور تحریک انصاف نے کمیشن کو مسترد کرنے کی بات کر کے کمال کیا اور گیند اس کورٹ میں پھینک دی جو کمیشن کے نام پر عمران خان کو دھوکہ دے رہی تھی۔ایسے ہی ہوا اس قوم کے ساتھ بلکل ایسے جیسے گاڑی کھڈے میں گرا کر ڈرائیور چھلانگ لگا دیتا ہے۔
ججز کا معاہدہ شائد یہی تھا کہ جنرل بھی لنگوا دیں گے اور دسمبر بھی۔ آج مجرم کون ہے یہ کورٹ ،تحریک انصاف، جماعت اسلامی یا نون لیگ فیصلہ عوام کر چکے ہیں پاکستان بھر سے اور پوری دنیا سے یہ پیغام آیا ہے کہ جج صاحب کسی زمانے میں سنا کرتے تھے عدالتی فیصلہ دیکھ کر ملزمان عدالتوں سے چھلانگ لگا کر فرار ہو جاتے تھے مگر یہاں تو الٹ ہو گیا۔ صیاد اپنے ہی جال میں پھنس گیا۔ ویسے کمال کے بنارسی تھے یہ لوگ روز نئے شگوفے چھوڑتے لوگ سمجھتے اب گیا کہ گیا۔
سوچا ہو گا کہ پی ٹی آئی بھولی ہے لیکن انہیں یہ یہ پتہ نہ تھی کہ وہ اتنی بھی بھولی نہیں کہ جماعت اسلامی نون لیگ اور ججوں کی ٹھگی کا شکار ہو کر کمیشن کو مان لے گی۔سچ پوچھیں اب اس حکومت کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں رہا ۔لوگ جان چکے ہیں ا س ملک کے سارے ادارے الیکشن کمیشن ایف آئی اے نیب ایف بی آر اور اب عدالتیں بھی چور کو چور جاننے کے بعد بھی اس پر گرفت نہیں ڈالتیں۔قوموں کی زندگی میں انصاف اہم چیز ہے وہ اسے ملتا رہے جنگیں ہوتی رہیں کرپشن جاری رہے توملک بچ جاتے ہیں اس لئے کہ جیسے ہی کوئی کرپشن ہو گی چور گرفت میں آ جائے گا۔آج ١٦ دسمبر نہیں ہے جس دن ڈھاکہ فال ہوا تھا جس دن اے پی ایس کا واقعہ رونما ہوا تھا لیکن شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے؟۔کیا ایک جنرل راحیل سے ڈر تھا انڈیا نے گولہ باری بند کر دی۔ پانامہ لیکس کے کیس کا بستر گول کر دیا گیا ڈان لیکس کے مجرم بلوں سے باہر آ گئے ڈاکٹر عاصم باہر زرداری کی آمد آمد کیا فوج ایک بندے کا نام ہے۔
Supreme Court of Pakistan
لوگ اب نئے پہلوان کی طرف دیکھتے ہیں کیا ضرب عضب پر مولوی فضل الرحمن کا بیان منہ نہیں چڑا رہا؟ اب ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ ضرب عضب ناکام ہو گیا۔کراچی میں آج رینجرز کے سامنے لوگ ڈٹ گئے یاد رکھئے ایم کیو ایم ایک ہے یہ پاک سر زمین پارٹی ایم کیو ایم لندن، پاکستان یہ سب ایک ہیں پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگانے والے اب بھی مضبوط ہیں ۔باغیوں کو پھول نہیں بھیجا کرتے۔ہمیں تو ذرا بھی سبق سیکھنا نہیں آتا ،ہندوستان کس طرح کشمیریوں کی جو وجہد کو تہس نہس کر دیتا ہے ۔ہم کراچی کے ان باغیوں کی آنکھیں کیوں نہیں پھوڑتے جو پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں؟یہ جو کھاتے ہیں پاکستان کا اور اسی کی تھالی میں چھید کرتے ہیں۔جس دن ہم نے اپنے دشمن سے سیکھ لیا ہم سنبھل جائیں گے دشمن کو دشمن رکھ کر بھی جیا جا سکتا ہے۔
یہ سب آپریشن ضرب عضب کے خلاف ہیں۔کیا پیپلز پارٹی اور کیا نون لیگ۔عدالتی فیصلے آنے چاہئیں تھے۔عمران خان وہ واحد شخص ہے جو ابھی تک اس نظام میں رہ کر تبدیلی لانے کی کوشش کر رہا ہے۔کیا اسے دیوار کے ساتھ لگائو گئے؟ پیپلز پارٹی تنگ ہوتی ہے وہ بھارتی ٹینکوں کے اوپر بیٹھ کر پاکستان آنے کی دھمکی دیتی ہے ،اے این پی تو ہے انڈیا کی پٹھو جماعت ملا فضل کوئی تازہ کانگریسی نہیں۔ حضوررہنے دیجئے پی ٹی آئی کو قومی دھارے کی پارٹی۔قوم کے منصفو! کیا حشر بپاء کرنا چاہتے ہو۔اگر ظلم گلی کوچوں میں بچے جن رہا ہے تو تم کیوں اپھل ہو۔بانجھ ہو تمہارے پیٹ سے کیوں کوئی برآمد نہیں ہوتا۔٢٠١٧ کا سال نیا بنچ نیا وکیل نئے دلائل۔لوگ شائد پیسوں کے بوجھ تلے دب کر مرنا چاہتے ہیں۔
یقین کیجئے آج تو نون لیگ کے ہمدرد بھی جان گئے ہیں کہ ساری دال ہی کالی تھی۔اسے مول لو اسے تول لو اسی فارمولے کے تحت موجودہ حکومت چل رہی ہے۔جھوٹی اپوزیش جھوٹی حکومت کیا میاں صاحبان اور کیا ڈبل شاہ سارے وقت گزارتے رہے۔سردیوں کی چھٹی جانے والے خود نہیں ان کا ضمیر چھٹی چلا گیا۔میاں نوا زشریف نے ہمیشہ عدالتوں کو خریدا ہے۔وہ اس کیس کو ہار چکے ہیں ٹیکنیکلی وہ مہلت پا کر شائد اپنے آپ کو مطمئن سمجھ رہے ہیں لیکن اندر سے ضمیر انہیں پھر مار رہا ہو گا ۔ جج صاحب جب قوم کے مستقبل کا سوال ہو تو چھٹیاں کینسل بھی ہو سکتی ہیں۔بات صرف چھٹیوں کی نہیں بات شائد سودے کی ہے جو یہیں تک کا تھا۔ یہ چالاکیاں کب تک ؟سڑک تو کسی کے باپ کی جاگیر نہیں۔